حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

ہفتہ، 12 مئی، 2012

پیس پارٹی : اتر پردیش میںمسلم سیاسی قوت کا ظہور


  بھارت کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش میں 2012 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے ےہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ریاست کے مسلم رائے دہندگان میں سیاسی شعور پیدا ہوا ہے۔ایک طرف جہاں مسلم رائے دہندگان نے سماجوادی پارٹی کو ووٹ دے کر اُسے بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے وہیں دوسری جانب محض چار سال قبل2008 میں وجود میں آنے والی پیس پارٹی کو بھی مضبوط کیاہے۔ پہلی بار اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والی اس نوخیز پارٹی کے چار ارکان اسمبلی کامیاب ہوئے ہیں۔ ریاست کے عوام نے ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچاتے ہوئے سیاسی قوت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ پیس پارٹی کا قیام ملک کے معروف سرجن ڈاکٹر محمد ایوب کے ذریعے فروری2008میں عمل میں آیا اور اس کا آغاز مشرقی اُترپردیش سے ہوا ۔ پارٹی نے مسلم اور دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی2009میں پارلیمانی انتخابات میں اُترپردیش کی ایک چوتھائی سیٹوں (21) پر اُمیدوار کھڑے کئے۔ پارٹی سیٹ جیتنے میں تو کامیاب نہیں ہوسکی البتہ اس کے اُمیدواروں نے چار پارلیمانی حلقوں میں سخت مقابلہ آرائی کی۔ خلیل آباد پارلیمانی حلقے سے پیس پارٹی کے اُمیدوار راجیش سنگھ کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے، اس طرح گونڈہ، بستی اور ڈومریاگنج پارلیمانی سیٹوں پر پارٹی کے اُمیدواروں نے ساٹھ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیا اور حاصل ووٹ فیصد کی بنیاد پر پیس پارٹی ریاست میں چھٹے مقام پر آگئی۔ پارٹی کو پانچ لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔ دریں اثنا ٹھیک ایک سال بعد2012ءمیں اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں پارٹی نے ریاست کی دوسیٹوں ڈومریا گنج اور لکھیم پور سے اُمیدوار کھڑے کئے اور پارٹی کو دونوں مقامات پر دوسری پوزیشن حاصل ہوئی۔ پارٹی 2012میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اپنی سیاسی قوت کو بروئے کار لانے کے لئے مسلسل میدان عمل میں سرگرم رہی اور خصوصی طور 
پر مشرقی اُترپردیش اور اس نے عموماً ریاست بھر میں ان حلقوں کوسامنے رکھ کر محنت کی۔ جن حلقوں میں مسلم اور انتہائی پسماندہ طبقات کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا ریاست کی ۱۶۸ سیٹوں کی نشاندہی کرکے رائے دہندگان کو اعتماد میں لینے کی بھرپور کوشش کرنے کے ساتھ ہی ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچانے کے لئے پیس پارٹی نے اپنی ہم خیال سیاسی جماعتوں سے اتحاد بھی کیا جس میں اپنادل، بندیل کھنڈ وکاس کانگریس، لوک جن شکتی پارٹی سمیت دیگر پارٹیاں شامل ہوئیں۔ انہوں نے الیکشن سے عین قبل وجود میں آئے ایکتا منچ (اعتماد فرنٹ) جس کی قیادت معروف عالم دین مولانا سلمان حسینی ندوی فرمارہے تھے میں بھی شرکت کی لیکن بہت جلد ہی سیٹوں کی تقسیم کو لے کر ہوئے تنازع کی وجہ سے انہیں اتحاد سے الگ کردیاگیا۔ اتحاد فرنٹ میں کل26 پارٹیاں شامل تھیں۔ ےہ اتحاد کس حد تک کامیاب ہوا اس کے لئے مستقل تجزےہ درکار ہے۔ اتحاد فرنٹ کاےہ الزام ہے کہ ڈاکٹر ایوب نے منچ کے اصول وضوابط کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے انہیں ایکتا منچ سے الگ کردیاگیا۔ پیس پارٹی 2012 میںپہلی بار اُترپردیش کو سولہویں اسمبلی انتخابات میں شریک ہوئی اور ریاست کی 403 اسمبلی سیٹوں میں سے208 پر اپنے اُمیدوار کھڑے کئے جس میں پارٹی صدر ڈاکٹر محمد ایوب سمیت چار امیدوار اسمبلی پہنچنے میںکامیاب ہوئے جب کہ دیگر چار اسمبلی حلقوں میں پیس پارٹی کو دوسرا مقام حاصل ہوا اس کے علاوہ آٹھ اسمبلی حلقوں میں تیسرے اور بارہ اسمبلی حلقوں میں پیس پارٹی کے امیدوار چوتھے مقام پر آئے۔ اس طرح ریاستی سطح پر حاصل ووٹوں کے تناسب سے پیس پارٹی کو پانچواں مقام حاصل ہوا۔ گویا اگر دوسرے تیسرے اور چوتھے مقام پر آنے والے امیدواروں کو یکجا کرلیں تو کل24 حلقوں میں پیس پارٹی نے سخت مقابلہ آرائی کی۔ غالباً اس بنا پر بعض سیاسی تجزےہ نگاروں کے خیال میں ایسے وقت جب ریاست میں سماج وادی کی لہر چل رہی تھی پیس پارٹی کی کامیابی اس بات کی مظہر ہے کہ اگر واضح بنیادوں پر کمزور طبقات کو ساتھ لے کر سنجیدہ کوشش اسی طرح جاری رہی تو آسام کے یو ڈی ایف کی طرز پر یوپی میں بھی مسلم قیادت میں ایک ایسی سیاسی قوت پروان چڑھے گی جس کا خواب مرحوم عبدالجلیل فریدی صاحب نے آزادی کے بعد ریاست اُترپردیش میں دیکھا تھا۔ فریدی صاحب کی قیادت میں ستر کی دہائی میں مسلم مجلس کے چودہ ایم ایل اے جیت کر اُترپردیش اسمبلی پہنچے تھے لیکن مرحوم عبدالجلیل فریدی کی وفات کے ساتھ ہی ےہ قوت بکھر گئی تھی۔ درمیان میں1994ءمیں نیشنل لوک تانترک پارٹی سمیت دیگر کوششیں ہوئیں لیکن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں اور بالآخر ےہ تسلیم کرلیا گیا کہ ایسی کوئی سیاسی کوشش جس کی قیادت مسلم قیادت کرے اور جس کا محور مسلم ووٹ ہو ریاست کی سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لیکن ڈاکٹر ایوب کی قیادت میں پیس پارٹی نے محض چار برس کی جدوجہد میں ہی ثابت کردیا ہے کہ سنجیدہ کوششیں ۔ رائیگاں نہیں جاتیں

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔