حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

منگل، 11 ستمبر، 2012

پولیس کے دعووں کی حقیقت اور میڈیا کا کردار

دہلی پولیس اپنے تمام دعووں کے حق میں کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام 

ملک کے موقر معاصر انگیزی روزنامہ ”انڈین ایکسپریس“ نے اپنی2ستمبر کی اشاعت میں صفحہ اوّل پر دہشت گردی سے متعلق بظاہر دو الگ الگ واقعات کی تفصیلات کو جگہ دی ہے۔ ایک کا تعلق بنگلور سے ہے جہاں پولیس نے ایک درجن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان مسلم نوجوانوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر پکڑاگیا ہے۔ معاصر مذکور نے اس کو نمایاں طور پر جگہ دی ہے۔ گویا اسی طرح ےہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پولیس نے دہشت گردی کے انتہائی خطرناک منصوبے کا پردہ فاش کیا ہے، خبر کی تفصیل میں جگہ جگہ رپورٹر جانسن ٹی اے نے پولیس کے مطابق کہہ کر اپنی صحافتی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کی ہے۔
 وہیں دوسری جانب اس خبر سے منسلک ایک دوسری اہم خبرمع تفصیل درج ہے۔ جس میں تیرہ فروری2012ءکو دہلی میں اسرائیلی سفارت کار کی کار پر مبینہ حملے کے الزام میں گرفتار سینئر صحافی محمد احمد کاظمی کے خلاف چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ونودیادو کی عدالت میں داخل چارج شیٹ کا ذکر ہے جس میں دہلی پولیس اپنے ان تمام دعووں کے حق میں کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پولیس کے دعوے اور چارج شیٹ کے مابین تضاد کو اُجاگر کرنے والی اس رپورٹ میں نامہ نگار ’پریش لاما‘ نے بڑی عرق ریزی کی ہے اور ان تمام پہلں کو نشاند ہی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس میں پولیس نے عدالت میں داخل چارج شیٹ میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ مسٹر لاما نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں ایک ایک کرکے پولیس کے ان سبھی دعووں کو بے نقاب کیا ہے جو محمداحمد کاظمی کی گرفتاری کے وقت دہلی پولیس نے میڈیا کے سامنے پیش کےے تھے۔ گزشتہ دنوں جب دہلی پولیس نے کافی ٹال مٹول کے بعد ملزم کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل کی تو سبھی دعووں کی پول کھل گئی۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستانی انٹلی جنس ایجنسیوں کاےہ روےہ بہت پرانا ہے۔ ماضی میں دہشت گردی کے الزام میں جتنی گرفتاریاں ہوئی ہیں تقریباً سبھی معاملوں کو پولیس نے اس طرح بڑھاچڑھا کر پیش کیا تھا،لیکن چارج شیٹ میں کوئی ثبوت نہ مل پانے کی وجہ سے بعد میں بہتوں کو عدالت کی طرف سے بری الذمہ ٹھہرادیاگیا، اور یوں انہیں برات حاصل ہوئی، اِس وقت بنگلور سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کی جو خبریں آرہی ہیں اس میں بھی پولیس کی پیش کش کا انداز وہی ہے پولیس اپنے دعوے میں کس حد تک درست ہے ےہ تو معاملے کی جانچ کے بعد ہی پتہ چلے گا۔


لیکن پولیس کی اس غیر ذمہ دارانہ کارروائی کا خمیازہ تو ملزمین کو طویل عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے، اس کی جوابدہی کون طے کرے گا؟ محمداحمد کاظمی کو جب گرفتار کیاگیاتھا اس وقت پولیس نے چند دعوے کےے تھے وہ ان کاثبوت عدالت میں پیش نہیں کرسکی ہے۔ پولیس کا ایک دعویٰ ےہ تھا کہ سینئر صحافی محمد احمد کاظمی2011ءسے کچھ غیر ملکی افراد سے بذریعہ فون رابطے میں تھے ان میں ایرانی شہری ہوشنگ افسر ایرانی بھی تھا۔ لیکن پولیس ان نمبروں پر ہونے والی تفصیلات عدالت میں پیش نہیں کرسکی۔ دوسری بات ےہ کہی گئی تھی کہ اس مبینہ حملے میں جو موٹر سائیکل برآمد کی گئی تھی وہ کالے رنگ کی ہیروہونڈا پیشن تھی جب کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق واقعے کے عینی شاہد گوپال کرشن نے اپنا جو بیان ریکارڈ کرایا تھا اس میں لال رنگ بتایا تھا۔پولیس نے گرفتاری کے بعد منعقدہ پریس کانفرنس میں ےہ دعویٰ کیا تھا کہ کاظمی کی اہلےہ کے بنک اکاونٹ میں 21لاکھ روپے بیرون ملک سے منتقل ہوئے تھے۔ جو انہیں مبینہ حملہ کرانے کے عوض فراہم کےے گئے تھے اس کا بھی کوئی ثبوت پیش کرنے میں پولیس ناکام رہی ہے۔
 اس کے علاوہ پولیس نے قرول باغ میں ہوٹل ہائی کے کمرہ نمبر ۳۰۵ میں حملہ آوروں کے ٹھہرنے کی بات کہی تھی اور قابل اعتراض مواد کے ساتھ ساتھ دھماکہ خیز مادہ پائے جانے کا دعویٰ کیا تھا مگر افسوس کہ پولیس اپنے اس دعوے کو بھی عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے ہوٹل کے رجسٹرکے مطابق ۲۶فروری کو ۳۰۵ نمبر کمرے کی کوئی بکنگ نہیں ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ محمد احمد کاظمی کے بارے میں پولیس نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی ماروتی آلٹو سے حملہ آوروں کو سفارت خانےکے علاقے کا دورہ کرایاتھا اور ان دہشت گردوں نے ہندوستان میں تیرہ دن گزارے تھے لیکن اس دعوے کے حق میں بھی پولیس عدالت میں کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ غورطلب امر ےہ ہے کہ ےہاں دہشت گردی کے دو واقعات بیان کےے گئے ہیں۔ اوّل الذکر معاملے میں میڈیا پولیس کے بیان ہی کو بنیاد بنا کر گفتگو کررہا ہے جب کہ وہیں دوسری جانب موخر الذکر رپورٹ سے پولیس کے دعووں کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گجرات میں عشرت جہاں انکانٹرمعاملے کو ٹھیک اسی انداز میں پولیس نے پیش کیا تھا جس طرح بنگلور میں مسلم نوجوانوں کے تعلق سے بات کی جارہی ہے۔ گجرات میں نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو جان سے مارنے کا پردہ فاش کرنے کا بہانہ بتا کر عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا تھا اور اب بنگلور میں بھی وہی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ ےہاں بھی ہائی پروفائل لوگوں کی جان کو خطرہ بتا کر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاگیا ہے۔پولیس کی ےہ ناکامی کوئی نئی بات نہیں ہے بعض موقعوں پر اپنے ان غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے پولیس کو عدالت کی سرزنش کا سامنا بھی کرناپڑا ہے، ان حقائق کے بار بار سامنے آنے کے بعد بھی پولیس کے کردار اور اس کے طرز عمل میں کوئی خاطرخواہ سدھار نہیں آیا ہے، ےہ ایک نہایت تشویش انگیز پہلو ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

E-mail:ashrafbastavi@gmail.com                                

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔