اکتوبر ماہ کی19 اور22 تاریخ کی یادیں ہندوستان کے ٹی وی ناظرین اور اخبارات کے قارئین کے ذہن ودماغ میں تادیر قائم رہیں گی، ہمیشہ کی طرح میڈیا کا متعصب چہرہ ایک بار پھر ملک کے سامنے پوری طور پرکھل کر آگیاساتھ ہی سرکاری ایجنسیوں کی دیدہ دلیری بھی عیاں ہوگئی، بلاشبہ یہ ایام کار پوریٹ میڈیا کے لئے آزمائش کے تھے جس میں وہ پوری طرح ناکام ثابت ہوا۔ ہوا یہ تھا کہ19 اکتوبر کومعروف صحافی محمد احمد کاظمی کی سات ماہ بعد عدالت عظمیٰ نے ضمانت پر رہا ئی کا حکم صادر کیا تھا، اس فیصلے کو اہم اس لئے بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس التمش کبیر کا بطور چیف جسٹس غالباً یہ سب سے اہم فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے ہندوستان کے لاکھوں انصاف پسندوں کے دل میں عدلیہ کے تئیں اعتماد کی بحالی کی ایک بار پھر تجدید کردی تھی،محمد احمدکاظمی کو ضمانت ملنے سے ان سیکڑوں افراد کو حوصلہ ملا ہے جو اسی طرح کے الزامات میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لئے اس فیصلے کو غیرمعمولی نوعیت کا فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ خبر میڈیا حلقوں کے لئے توجہ کا باعث نہیں رہی۔ رہائی کی خبر دینے میں کافی بے دلی برتی گئی، یہاں تک کہ سرکار کے زیر انتظام چلنے والے نیشنل براڈ کاسٹنگ ہاوس تک نے بھی اس کی خبر دییا ضروری نہیں سمجھا، انٹر نیٹ پر اس خبر کی ترسیل کا عمل بھی کافی سست رہا ۔ 19اکتوبر کی دیر شام تک معاصر انگریزی روزناموں کے چند انٹرنیٹ اڈیشنوں نے اعلان نما مختصرخبر سے کام چلا لیا ، قارئین کے استفادے کے لیے یہاں ایک غیر ملکی اخبارخبر کا حوالہ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ٹائمس آف اسرائیل" نے اپنے 19اکتوبر کے انٹر نیٹ اڈیشن میں اس خبرکو کچھ اس طرح پیش کیا، خبر کی سرخی ملاحظہ ہو ہندوستان کی عدالت عالیہ نے اس شخص کوضمانت دے دی ہے ،جس نے اسرائیلی سفارتخانہ کے کار پر دھماکہ کرکے سفارت کار کی بیوی کوزخمی کردیا تھا " یہ تو ایک مثال ہے کم و بیش اسی طرز تحریر کو ہندوستانی میڈیانے بھی اپنایا تھا ۔اور منفی تاثر ظاہر کرنے کی بھر پورکوشش کی گئی لیکن یہی میڈیا 6 مارچ کی دوپہر اس وقت کافی سرگرم ہوگیا تھا جب انہیں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے باہرسے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے گرفتار کیا تھا۔ چنانچہ میڈیا اور دوسرے حلقوں کی جانب سے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کو داد و تحسین سے خوب نوازا گیااس کے ساتھ ہی محمد احمد کاظمی کی کردار کشی کالا متناہی سلسلہ شروع ہوا میڈیا میں قیاس آرائیوں پر مبنی مباحثے و مذاکرے ہونے لگے ، اسپیشل سیل کے افسران پریس کانفرنسیں کرکے میڈیا کو بوقت ضرورت مواد فراہم کرتے رہے ۔اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ اب تو دہشت گردی میں یقین رکھنے والوں نے صحافت جیسے باوقار اور بااعتبار پیشے میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ ان کے غیر ملکی اسفار کی روداد ،غیرملکی خبر رساں ایجنسیوں سے ان کے روابط،ان کے اہل خانہ کے بینک اکاونٹس پر خوب سے خوب تر معلوماتی مباحثے میڈیا نے اپنے قارئین و ناظرین کے سا منے پیش کیے ۔
بہرکیف دوسری جا نب کاظمی صاحب کے حق میں آواز بلند کرنے والوں نے بھی اول روز ہی سے مورچہ سنبھال لیا تھا، پولیس کے تمام دعووں کو عدالت میں چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا ، ملک کے با وقار شہریوں کے گروپ نے سرگرم رول ادا کیا اور ہر سطح پر کوششیں شروع ہوئیں ملک کی سرکردہ ملی و سماجی تنظیموں نے بھی اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کی اس طرح کاظمی صاحب کے قابل وکلاءنے یہ مرحلہ سات ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد با لاخر طے کرلیا ، اب کاظمی صاحب ضمانت پر رہا ہوکر گھر آگئے ہیں۔ ان کی رہائی کا فیصلہ19 اکتوبر کی دوپہر ہی کو آچکا تھا، عدالتی کارروائی مکمل کرنے کے بعد جب ان کے وکیل محمودپراچہ باہر نکلے تو میڈیامیں وہ جوش نہیں تھا، ان کا بیان لینے کے لئے چینلوں کے رپورٹروں میں آج مقابلہ آرائی نہیں تھی، سب کچھ معمول کے مطابق تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے احاطے سے باہر کم از کم آدھا درجن نیوز چینلوں کی OB وین قطار میںکھڑی تھیں، اسی طرح دوسرے دن جب انہیں تہاڑ جیل سے باہر لایاگیا اس وقت بھی میڈیا کی یہی سرد مہری نظر آئی۔
اب ذرا 22 اکتوبر پر ایک نظر ڈالیں یہ دن میڈیا کے لئے کافی گہماگہمی والا تھا کیونکہ فصیح محمود کو سعودی عرب نے ہندوستان کے حوالے کیا تھا اور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل جو کل تک کاظمی صاحب کی ضمانت پر رہائی کی وجہ سے پشیمان تھی آج بہت چاق وچوبند نظر آئی، آج میڈیا کے لئے مواد ہی مواد تھا۔ آج نیوز چینلوں کے ان رپورٹروں کے لئے راحت کا دن تھا جن پر ہر قیمت پر اسٹوری فراہم کرنے کا دباﺅ ہوتا ہے ۔ آج انٹرنیٹ پر بھی فصیح محمود کی گرفتاری کے متعلق خبروں کی بھرمار تھی۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی ویب سائٹس فصیح محمود کی خبروں سے اٹی پڑی تھیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
ان دونوں واقعات کا تجزیہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں چوتھے ستون کی حیثیت رکھنے والے میڈیا کی صورتحال کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریتی آبادی کے ساتھ اس کا یہ رویہ کیوں ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے پر اخبارات اور نیوز چینلوں کی کلپ کے ساتھ، ایڈیٹرس گلڈ، پریس کونسل اور براڈ کاسٹنگ کارپوریشن آف انڈیا کے ذمے داران سے ملاقات کی جائے اورانہیں اپنے موقف سے آگاہ کرایا جائے۔
E-mail:ashrafbastavi@gmail.com
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ خبر میڈیا حلقوں کے لئے توجہ کا باعث نہیں رہی۔ رہائی کی خبر دینے میں کافی بے دلی برتی گئی، یہاں تک کہ سرکار کے زیر انتظام چلنے والے نیشنل براڈ کاسٹنگ ہاوس تک نے بھی اس کی خبر دییا ضروری نہیں سمجھا، انٹر نیٹ پر اس خبر کی ترسیل کا عمل بھی کافی سست رہا ۔ 19اکتوبر کی دیر شام تک معاصر انگریزی روزناموں کے چند انٹرنیٹ اڈیشنوں نے اعلان نما مختصرخبر سے کام چلا لیا ، قارئین کے استفادے کے لیے یہاں ایک غیر ملکی اخبارخبر کا حوالہ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ٹائمس آف اسرائیل" نے اپنے 19اکتوبر کے انٹر نیٹ اڈیشن میں اس خبرکو کچھ اس طرح پیش کیا، خبر کی سرخی ملاحظہ ہو ہندوستان کی عدالت عالیہ نے اس شخص کوضمانت دے دی ہے ،جس نے اسرائیلی سفارتخانہ کے کار پر دھماکہ کرکے سفارت کار کی بیوی کوزخمی کردیا تھا " یہ تو ایک مثال ہے کم و بیش اسی طرز تحریر کو ہندوستانی میڈیانے بھی اپنایا تھا ۔اور منفی تاثر ظاہر کرنے کی بھر پورکوشش کی گئی لیکن یہی میڈیا 6 مارچ کی دوپہر اس وقت کافی سرگرم ہوگیا تھا جب انہیں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے باہرسے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے گرفتار کیا تھا۔ چنانچہ میڈیا اور دوسرے حلقوں کی جانب سے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کو داد و تحسین سے خوب نوازا گیااس کے ساتھ ہی محمد احمد کاظمی کی کردار کشی کالا متناہی سلسلہ شروع ہوا میڈیا میں قیاس آرائیوں پر مبنی مباحثے و مذاکرے ہونے لگے ، اسپیشل سیل کے افسران پریس کانفرنسیں کرکے میڈیا کو بوقت ضرورت مواد فراہم کرتے رہے ۔اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ اب تو دہشت گردی میں یقین رکھنے والوں نے صحافت جیسے باوقار اور بااعتبار پیشے میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ ان کے غیر ملکی اسفار کی روداد ،غیرملکی خبر رساں ایجنسیوں سے ان کے روابط،ان کے اہل خانہ کے بینک اکاونٹس پر خوب سے خوب تر معلوماتی مباحثے میڈیا نے اپنے قارئین و ناظرین کے سا منے پیش کیے ۔
بہرکیف دوسری جا نب کاظمی صاحب کے حق میں آواز بلند کرنے والوں نے بھی اول روز ہی سے مورچہ سنبھال لیا تھا، پولیس کے تمام دعووں کو عدالت میں چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا ، ملک کے با وقار شہریوں کے گروپ نے سرگرم رول ادا کیا اور ہر سطح پر کوششیں شروع ہوئیں ملک کی سرکردہ ملی و سماجی تنظیموں نے بھی اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کی اس طرح کاظمی صاحب کے قابل وکلاءنے یہ مرحلہ سات ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد با لاخر طے کرلیا ، اب کاظمی صاحب ضمانت پر رہا ہوکر گھر آگئے ہیں۔ ان کی رہائی کا فیصلہ19 اکتوبر کی دوپہر ہی کو آچکا تھا، عدالتی کارروائی مکمل کرنے کے بعد جب ان کے وکیل محمودپراچہ باہر نکلے تو میڈیامیں وہ جوش نہیں تھا، ان کا بیان لینے کے لئے چینلوں کے رپورٹروں میں آج مقابلہ آرائی نہیں تھی، سب کچھ معمول کے مطابق تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے احاطے سے باہر کم از کم آدھا درجن نیوز چینلوں کی OB وین قطار میںکھڑی تھیں، اسی طرح دوسرے دن جب انہیں تہاڑ جیل سے باہر لایاگیا اس وقت بھی میڈیا کی یہی سرد مہری نظر آئی۔
اب ذرا 22 اکتوبر پر ایک نظر ڈالیں یہ دن میڈیا کے لئے کافی گہماگہمی والا تھا کیونکہ فصیح محمود کو سعودی عرب نے ہندوستان کے حوالے کیا تھا اور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل جو کل تک کاظمی صاحب کی ضمانت پر رہائی کی وجہ سے پشیمان تھی آج بہت چاق وچوبند نظر آئی، آج میڈیا کے لئے مواد ہی مواد تھا۔ آج نیوز چینلوں کے ان رپورٹروں کے لئے راحت کا دن تھا جن پر ہر قیمت پر اسٹوری فراہم کرنے کا دباﺅ ہوتا ہے ۔ آج انٹرنیٹ پر بھی فصیح محمود کی گرفتاری کے متعلق خبروں کی بھرمار تھی۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی ویب سائٹس فصیح محمود کی خبروں سے اٹی پڑی تھیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
ان دونوں واقعات کا تجزیہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں چوتھے ستون کی حیثیت رکھنے والے میڈیا کی صورتحال کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریتی آبادی کے ساتھ اس کا یہ رویہ کیوں ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے پر اخبارات اور نیوز چینلوں کی کلپ کے ساتھ، ایڈیٹرس گلڈ، پریس کونسل اور براڈ کاسٹنگ کارپوریشن آف انڈیا کے ذمے داران سے ملاقات کی جائے اورانہیں اپنے موقف سے آگاہ کرایا جائے۔
E-mail:ashrafbastavi@gmail.com
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔