یہ بل ہندومخالف نہیں ہے
تیستا سیتلواڈ، سرکردہ سماجی کارکن
جب بھی سماجی ایشوز کے پیش نظر قانون بنانے کی کوشش شروع ہوتی ہے، اس میں وقت لگتا ہے۔ اس سے قبل ۱۹۸۰ء کی دہانی میں جہیز ایکٹ اور پھر حق اطلاعات ایکٹ اس کی مثال ہیں۔ اس پر کافی بحث ومباحثہ ہوا، لہٰذا جب کبھی قانونی اصلاح کی بات کی جاتی ہے تو اس طرح کی مخالفت ہوتی ہی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک میں سرکار، بیورو کریسی اور ایک عام سوچ یہ ہے کہ جب اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لئے پہلے ہی سے قوانین موجود ہیں تو ایک نیا قانون کیوں بنایا جائے؟ اس سوچ کی وجہ سے قانون سازی کے مراحل میں دشواریاں پیدا کی جاتی ہیں، اِن دشواریوں سے نمٹنے کے لئے عوامی بیداری اور سیاسی دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ۲۰۱۱ء میں نیشنل ایڈوائزری کونسل (NAC)نے انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کا ڈرافٹ سرکار کو بھیجا، تو ہونایہ چاہئے تھا کہ سرکار اپنا کام کرے، اور اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ اس کے بجائے اس ڈرافٹ کو قومی یکجہتی کونسل کے سامنے پیش کیاگیاتاکہ اس کی مخالفت شروع ہو اور یہی ہوا وزارت داخلہ کا یہ بہت غلط قدم ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ جس طرح سرکار غذائی تحفظ بل لانے پر کام کررہی ہے اور اب بجٹ اجلاس میں پیش کرنے والی ہے یہی حکمت عملی انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل پر کیوں نہیں اپنائی گئی۔ یوپی اے سرکار میں ایک بڑا طبقہ چاہتاہے کہ یہ قانون آئے اور جلد آئے لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس بل کو قانون بنتے دیکھتا نہیں چاہتا۔ ہم دیگر سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر عوامی اور خصوصی حلقوں میں اس بل کے تحت پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے تعلق سے ایک بڑی غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ یہ قانون صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے گا اور یہ ہندومخالف ہے۔ جب کہ یہ الزام بے بنیاد ہے۔ ہمارے آئین میں اقلیت کی کوئی خاص تعریف نہیں کی گئی ہے۔ اس کے تحت لسانی، علاقائی اور نسلی تمام طرح کی اقلیتیں اس میں شامل ہوں گی حتی کہ جموں وکشمیر کے پنڈت بھی اس قانون کافائدہ اٹھاسکیں گے۔ اس قانون کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انتظامیہ اور پولیس کو جو ابدہ بنایاگیا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دی جاسکے گی۔ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے دھولیہ، گوپال گڑھ فاربس گنج میں پولیس زیادتی کے مناظر دیکھے گئے ہیں۔ مذکورہ بل کے نفاذ کی صورت میں وہ سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس بل کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ معاوضہ طے کردیاگیا ہے اس میں کسی طرح کی کوئی کمی کوئی ریاستی سرکار چاہتے ہوئے بھی نہیں کرسکے گی۔ معاوضہ ہر صورت میں ایک ماہ میں ادا کرنا ہوگا۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ اس قانون سے فرقہ وارانہ فسادات میں کمی آئے گی، افسران میں احساس ذمہ داری بڑھے گا انہیں سزا کا خوف ہوگا تو آزادانہ طور پر قانون کی خلاف ورزی کرنے سے باز آئیں گے۔ سرکار کے لئے وقت زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ جب اسے کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو وہ کرگزرتی ہے۔ یو اے پی اے ایکٹ میں ترمیم اس کی زندہ وتازہ مثال ہے جس کو پارلیمنٹ میں پاس کرالیاگیا۔ اس کی مخالفت صرف سی پی ایم نے کی تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ قانون بنانے کے مطالبے کو لے کرملک گیر سطح پر عوامی بیداری پیدا ہو، ہر وہ طبقہ جو فسادات اور تشدد کو پسند نہیں کرتا اسے آگے آنا چاہئے۔ کچھ لوگ جن کی سیاست فسادات اور ناحق خون خرابے کی بنیاد پر ہے۔ یہی لوگ اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ سرکار اس بل کو پیش کرنا چاہے تو اسے بجٹ اجلاس میں پیش کرسکتی ہے، اصل سوال ارادے اور نیت کا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ راجیہ سبھا میں یہ بل اسی اجلاس میں پیش کیا جائے، اسٹینڈنگ کمیٹی میں اس پر جمہوری طریقے سے بحث شروع ہو، اس میں جو بھی ترمیمات ضروری ہوں سرکار کرے، ہم ہرگز یہ مطالبہ نہیں کررہے ہیں کہ اس ڈرافٹ کو من وعن قانون بنادیاجائے۔ آر ٹی آئی ایکٹ میں پاس ہونے سے قبل ۱۹۰ ترمیمات کی گئی تھیں۔ اس لئے سرکار ہر صورت میں اسے پارلیمنٹ میں لائے جو باتیں ہوں اسٹینڈنگ کمیٹی میں ہوں۔
گفتگوپر مبنی
بل کے حق میں ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے
رام پنیانی، معروف کالم نگار، ممبئی
سرکار نے جب اس بل کو نیشنل انٹگریشن کونسل میں پیش کیا تھا اس وقت سے ہی اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے سرکار ڈرگئی حالانکہ سرکار کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ بل بہت ضروری ہے ۔ اسے قانون بننا چاہئے۔ لیکن مضبوط قوت ارادی نہ ہونے کے سبب وہ آگے نہیں بڑھ رہی ہے ، سرکار کایہ رویہ درست نہیں ہے۔میرے خیال میں اس بل کو اسے پارلیمنٹ میں پیش کرناچاہئے، بحث پارلیمنٹ میں ہی ہو جن گروپوں کو اختلاف ہے وہ تجاویز کی صورت میں ترمیمات پیش کریں، ہمارا مطالبہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ بل کو موجودہ صورت ہی میں یعنی من وعن قانون کی شکل دی جائے۔ سرکار کو اختیار ہے کہ وہ اس پر غور وخوض کرے۔اس معاملے میں ہوا یہ ہے کہ سرکار نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرے گی۔ سرکار کا یہ رویہ درست نہیں ہے۔ اس بل کو قانون کی شکل میں تبدیل کرانے کے لئے ملک گیر سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ سرکار پر یہ دباؤ بنایاجائے کہ اُترپردیش اور مہاراشٹر سمیت دیگر مقامات پر فسادات کا سلسلہ جاری ہے یہ بہت مناسب وقت ہے کہ اس بل پر بحث ہواور ضروری ترامیم کے بعد اسے قانون بنادیا جائے۔ مہم چلانے کے لئے یہ مناسب وقت ہے۔ آئندہ برس عام انتخابات ہونے والے ہیں اور اس ماہ کے اواخر میں بجٹ سیشن شروع ہونے والا ہے۔ حکومت سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ میں تنقید کی پروا کیے بغیر پیش کرے اور اِسی بجٹ اجلاس میں پیش کرے۔اس بل میں غیر ذمہ دار افسران کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا نظم ہے۔ متاثرہ گروپ کی تعریف میں کونسل میں اعتراض کیاگیا تھا، اس میں یہ اضافہ کردیا جانا چاہئے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے شکار ہر طبقے کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کمیونل وائلنس اتھاریٹی بنانے کی بات پر بھی اعتراض ہے۔ ان دونوں پر غور کرکے بقیہ تسلیم کرلینا چاہئے۔
گفتگو پر مبنی
قانون بننے تک جدوجہد جاری رہے گی
فیروز اختر قاسمی، جنرل سکریٹری مرکزی جمعیت علماء
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ تو آزاد ی سے قبل انگریزی دور حکومت میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد اس میں مزید تیزی آگئی۔ چونکہ ملک میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں اس لئے ان کو سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ملک میں سماجی دشمن عناصر یہاں امن وسکون قائم نہیں رہنے دینا چاہتے اور اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر یہ باور کرانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں کہ انہیں یہاں اکثریتی طبقے کے رحم وکرم پر زندگی گزارنی پڑے گی۔انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل ۲۰۱۱ء میں مختلف مراحل سے گزار کر سرکار تک پہنچادیا گیا۔ لیکن مرکزی سرکار نے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے اسے قومی یکجہتی کونسل میں پیش کیاگیا۔یہ بل ان لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ہے جو فرقہ وارانہ فسادات برپا کرتے ہیں۔ ملک میں بہت بڑا سیاسی گروپ ہے جس کا نصب العین ہی ملک میں امن وسکون تباہ کرنا اور اقلیتوں کو خوف وہراس میں مبتلا رکھنا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو اس بل کی شدید مخالفت کررہا ہے۔اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد ہی بحث ہونی چاہئے۔ یہ بل کسی خاص طبقے یا گروپ سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نہیں ہے، انسداد فرقہ وارانہ فسادات کا یہ خاص قانون کار آمد ثابت ہوگا۔مرکزی جمعیت علماء سمیت دیگر تنظیمیں سرکار پر دباؤ بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں، بہت پہلے سے ہی اس سلسلے میں بیداری کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ملک کی سبھی اقلیتوں اور کمزور طبقات کے درمیان جاکر انہیں اعتمادمیں لیا جائے اور تبھی سرکار توجہ دے گی۔ ملک گیر سطح پر بیداری پیدا کرنے کے لئے کچھ سماجی کارکنان اور گروپوں کی مددسے اس کام کو آگے بڑھایا جاسکتاہے۔ قانونی ماہرین کی بھی مدد کی جائے تاکہ عوام میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جاسکے۔ اس طرح کی ایک بیداری مہم کی تجویز زیر غور ہے جسے مارچ کے پہلے ہفتے ہی شروع کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ ایک ماہ تک چلنے والی اس مہم میں معروف سماجی کارکن تیتاستیلواڑ کی قیادت میں ایک امن کارواں نکالنے کی تیاری جاری ہے۔ سبھی اقلیتوں کو ساتھ لے کر کام کیاجارہا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے تحفظ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس قانون کے بننے کے بعد ہندوستان میں امن وسکون اور ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ بل سے قانون بننے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
گفتگو پر مبنی
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔