آئندہ
عام انتخابات میں ملک کا سیاسی ایجنڈا کیاہوگا؟ کیا فرقہ وارانہ تشدد کی تازہ لہر 2014فرقہ پرست سیاسی حلقوں کے لئے کے عام انتخابات
میں معاون ثابت ہوگی؟ برسر اقتدارموجودہ یوپی اے سرکار کے عوام مخالف رویے
اور اس کی امریکہ نواز معاشی پالیسی سے ناراض بھارتی کیا رُخ اختیار کریں گے؟ ملک کی
دوسری بڑی اکثریتی آبادی جو کہ مسلمانوں پر
مشتمل ہے وہ کس سیاسی خیمے میں پناہ لیں گے؟ کیا بھارت کی مسلم قیادت حالات وواقعات
کا نوٹس لیتے ہوئے اتحادکی عملی کوشش کرے کریں
گے ؟ یا پھر انفرادی کوششوں سے ہی کام چلاتے رہیں گے؟ بھارت کے پندرہ کروڑ مسلمان آئندہ
لوک سبھا انتخابات میں اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کس طرح کریں؟ کیا مسلم تنظیمیں یا
مسلم سیاسی جماعتیں اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ ملک کی سرکردہ سیاسی جماعتوں سے معاہداتی
سیاست کرسکیں؟
یہ چند سوالات ملک
کے باشعور شہریوں کے دل ودماغ میں اس وقت تیزی گردش کرنے لگے ہیں جس کااظہار بھی شروع
ہوگیا ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت 2014 میں اپنی کامیابی کو لے کر دست وگریباں نظر آرہی ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس
دونوں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ملک کے عوام کو ایک بار پھر فرقہ واریت کی آگ میں
جھونک کر اپنےسیاسی مقاصد حاصل کرلئے جائیں۔ تاکہ عوام کوئی ایسا نیشنل ایشو نہ اٹھاسکیں
جس سے ان کے لئے مشکلات کھڑی ہوں نیزملک کودرپیش معاشی عدم استحکام اور ہوش رُبا گرانی
پر کوئی سوال نہ کیا جائے۔ دونوں پارٹیاں فرقہ واریت کی کشتی پر سوار ہوکر منزل طے
کرلیناچاہتی ہیں اور یہ بڑی حد تک ہوتا ہوا دکھائی بھی دے رہا ہے۔ گجرات کے تین ہزار
سے زائد معصوموں کے قاتل نریندر مودی کی تاج پوشی اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی
تازہ لہر سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ دونوں بڑے سیاسی حلقے ملک کو درپیش چیلنجوں
اور ان کے حل کواپنا انتخابی ایجنڈا نہیں بنانا چاہتے ، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دونوں
ہی سیاسی جماعتیں پالیسی کے اعتبار سے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کے لئے کوشاں
ہیں اور اس معاملے میں ان کے درمیان مسابقت پائی جاتی ہے۔ معاملہ نیوکلیئر
ڈیل کا ہو یا غیر ملکی راست سرمایہ کاری کا،اب تک
سبھی معاملوں میں اپوزیشن نے برسراقتدار یوپی اے کی خاموش حمایت کی ہے۔ اس
لیے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک کی معیشت انتہائی نازک دور سے
گزر رہی ہے، روپے کی قدر میں روز بروز گراوٹ دیکھی جارہی ہے۔ گھریلو صنعتی پیداوار
گھٹ کر نچلی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ ہوش رُبا گرانی سے عام زندگی دشواریوں کا شکار ہے، ایسے وقت ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کھیل شروع
ہوگیا ہے، ایسی صورت میں 2014 کے عام انتخابات کا حقیقی عوامی ایجنڈا کیا ہو، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے
کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے بھارت کی مسلم قیادت جو کئی خیموں میں منقسم ہے اس
کے کرنے کا کام کیاہے؟ کیا موجودہ مسلم قیادت اس پوزیشن میں ہے کہ معاہداتی سیاست کے
اس دور میں مسلم ووٹوں کو صحیح رُخ دے سکے گی؟ اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ کیونکہ فی
الحال ایسی کوئی قیادت دُور دُور تک نظر نہیں آتی۔ تو ایسی صورت میں کیا مسلم ووٹروں
کو ان کی صواب دید پر چھوڑ دینا بہترہوگا؟
اگروقت رہتے ان سوالات
کاجواب بھارت کی مسلم قیادت تلاش کرنے میں
کامیاب رہی تو حالات بدل سکتے ہیں، ورنہ
بکھرے ہوئے تاروں سے کوئی بات بننے والی نہیں ہے۔
( یہ مضمون اردو ٹائمس امریکہ کے آن لائن ایڈیشن پر بھی دستیاب ہے)
لاگ آن کریں
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔