کیا آپ ایسے شخص کو وزیراعظم کی کرسی پر دیکھنا پسند کریں گے جو اپنے
بیانات میں صریح دروغ گوئی کرتا ہو؟ جو ملک کے عوام سے اپنا جذباتی رشتہ جوڑنے کے لئے
موقع بموقع جھوٹے واقعات اور تعلقات کا اظہارکرتاہو؟ یقیناً اس کا جواب ہر ذی شعور
شہری نفی میں ہی دے گا۔ لیکن تشویشناکاامریہ ہے کہ اس وقت ملک کی سیاست میں سرگرم ایک گروپ نے ملک کے آنے والے دنوں کے وزیر اعظم کے طور پر
جن کا تعارف کرایا ہے وہ اپنی گفتگو میں جھوٹے واقعات نقل کرنے میں ماہر ہیں۔ نریندر
مودی نے حالیہ دنوں دروغ گوئی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں تازہ واقعہ پٹنہ کے گاندھی
میدان کا ہے۔ مودی موقع کی مناسبت کے اعتبار سے اپنے جھوٹے بیانات کے ذریعے عوام کے
دلوں پر رنگ جمانے کی سعی کرتے دیکھے جارہے ہیں۔حالانکہ پٹنہ میں دیئے گئے ان کے بیانات
کا سخت نوٹس لیتے ہوئےبہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنے دیرینہ رفیق کی غلط بیانی
کی تصحیح گزشتہ دنوں پارٹی کارکنوں کے کنونشن میں کردی ہے جومیڈیا کے حوالے سے عوام تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب نریندرمودی نے عوامی اجلاس کے موقع پر
غلط بیانی کے ذریعے اپنی مقبولیت کو دوام بخشنے کے لئے دروغ گوئی کا سہارا لیاہو۔ اِس
سے قبل بھی متعدد دفعہ نریندر مودی نے بڑے ہی جذباتی اندازمیں اسٹیج کی مناسبت سے جھوٹی
خواہشات کااظہار کیا ہے۔ بطور مثال چند واقعات منقول ہیں۔
اس برس ماہ ستمبرکے وسط میں
ہریانہ کے ریواڑی میں سا بق فوجیوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ
’’میں بھی فوجی بننا چاہتا تھا‘‘اِس سال اپریل کے اوائل میں ہری دوار میں بابا رام دیو کی مجلس میں نریندر مودی نے کہا
کہ ’’میں سادھو بننا چاہتا تھا۔‘‘ ایک اسکول کے پروگرام میں کہاکہ میں ’’ٹیچر بننا
چاہتا تھا‘‘ آخر وہ کیوں نہیںکہتے کہ وہ وزیر اعظم بننا چاہتے تھے۔ انہیں اب یہ کہنا
چاہئے۔ گویا الگ الگ مواقع پر جھوٹی خواہشات کے اظہار کی کشتی پر سوار ہوکر وہ وزارت
عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کے لئے بے قرار ہیں۔ جس کا حافظہ اتنا کمزو ہو کہ اپنی
تحریک کے بانیا ن میں اہم نام شیاما پرساد
مکھرجی کے تعلق سے غلط بیانی کی ، گا ندھی جی کو موہن لال کرم چند
گاندھی کہہ دیا ، سوال یہ ہے کہ ایک شخص جس کا دامن گجرات فسادات کے خون سے تر ہو جس
کا ہر قول دروغ گوئی پر مبنی ہو، جس کو ملک کے وزیر اعظم کے طور پر بی جے پی نے صرف
اس لئے پیش کیا ہے کہ یہ نام فرقہ پرست ذہنوں کی پسند بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا
نریندر مودی کو گجرات فسادات کے عوص تحفے کے طور پر وزارت عظمیٰ کا اُمیدوار بنانے
والی بی جے پی عوام کے حقیقی سوالات کا سامنا کرنے کو تیار ہے؟
سوال میڈیا کے اس حلقے سے
بھی ہے جو دن رات ’’نمونمو‘‘ کی گردان کرتے نہیں تھکتا ہے۔ آخر مودی کی اِس دروغ گوئی
پر میڈیا سنجیدہ سوالات کیوں نہیں کرتا؟ خود کو متبادل کے طور پر پیش کرنے والے مودی
سے یہ سوال کیوں نہیں کیاجاتا کہ ان کے پاس ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے کیا منصوبہ
ہے؟ ان کی خارجہ پالیسی کانگریس سے کس قدر مختلف ہے؟
امریکہ سے تعلقات کی بنیاد
کیا ہوگی؟ خطے میں امن کے قیام کا کیا منصوبہ ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن پر نریندر
مودی سے جواب طلب کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔