تحریر : احمد جاوید
ترکی
سے صدارتی انتخابات کے نتائج اوروزیراعظم طیب اردگان کے ۵۲؍فیصدووٹوں کےساتھ ملک کا
صدر منتخب ہوجانے کی خبرآئی تومبصرین نے کہاکہ یہ ترکی میں عہداتاترک کے
خاتمہ کا اعلان ہے اور میں پہلی جنگ عظیم ،اس کے پہلے اور بعدکے عالم اسلام کی
تاریخ میں دورتک ڈوبتا چلاگیا، دیر تک غوطے کھاتا رہا۔اقبال نے کہا تھا’ چاک
کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا‘لیکن اب ترکوںکی دانائی پر دنیا حیران ہے
اور عربوں کی نادانیوں پراہل دانش مبہوت۔ ماتم ترک ناداں کی چاک گریبانی کا نہیں
،غم ہے تو شیوخ حرم کی چیرہ دستیوں کا۔
یہ
ترکی تھا جس نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں فوجی انقلاب کا راستہ
چنا تھا اور ملک میں جبرواستبداد کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی تھی ۔ اتاترک مصطفے
کمال پاشاکے فوجیانقلاب کے بعد اس وبا نے دنیائے عرب کا رخ کیا۔ پہلے مشرق کا
دروازہ کہلانے والےمصر میں کرنل جمال عبدالناصر نے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا
گلا گھونٹا، پھرعراق، شام اورلیبیا میں فوجی بغاوتیں رونما ہوئیں حتی کہ
پاکستان بھی اس وبا کی زد میں آیااور تھوڑے تھوڑے وقفےکے بعدیہ سلسلہ مملکت
خدادادمیں اپنی تمامترخرابیوں کے ساتھ جاری رہا۔ سعودی عرباور خلیج کے دوسرے ممالک
پہلے ہی بنیادی طورپرفوجی ریاستیں تھیں جو اپنے امیروں یاسلطانوں کی سربراہی میں
خلافت عثمانیہ کےخلاف بغاوت کے نتیجے میں اس کے زوال کےبعد وجودمیں
آئی تھیں۔عجیب اتفاق ہے کہ ترکی نے ۲۰۰۰ء کے آس پاس واپسی کا
سفرشروع کیا اور اب وہ جنگ عظیم کی
شکست خوردگی کی نفسیات سے نکل چکا ہے اور اب مغربی مبصرین بھی کہہ رہے ہیں کہ
ترکی میں عہد اتاترک کے خاتمہ کا
آغاز ہوچکا ہے لیکن جن مسلم ملکوں نے اتاترک کی راہ ترکی کے بیس پچیس
برسوںبعداختیار کی تھی وہ ابھی بھی عہداتاترک میں جی رہے ہیں، ان ملکوں کی فوجیں
اب بھی فرزندان وطن کی امنگوں کو کچلنے اور ان کےخون سے اپنی ہوس اقتدار کی
تسکین کرنے میں مصروف ہیں۔
مصرمیں
حسنی مبارک کی برطرفی اور جمہوری عمل کے آغازکے بعد ہم نے خیال کیا تھاکہمشرق کا
دروازہ بھی اس انقلاب کے لیے کھل چکا ہے جس نے اب سے بیس برس پہلے ترکی میںدستک دے
دیا تھا لیکن براہو عالمی سامراجاوربین الاقوامی صیہونیت کا جس نے اس پروسس
کو تلپٹ کردیا اور خادم الحرمین کیدولت ایک منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے میں کام
آئی۔تاریخ اپنے آپ کو دوہرارہی ہے ،اخوانیوں پر پھر وہی مظالم ڈھائے جارہے ہیں
جو ان پرکرنل ناصر اور اس کے جانشینوںنے ڈھائے تھے۔ گویا اسلام اب اپنے ہی گھر اور
اپنے گہوارے میں پھر بےیارومددگارہے۔
ایسے
وقت میں کہ جب مسلمانوں پر ان کے اپنے ہیملکوں میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں،ان کی
امنگوں کو کچلاجارہاہے، فلسطین لہولہان ہے، عراق تباہ و برباد ہے، شام
کی سرزمین ہردنخون مسلم کی ارزانی سے سرخ ہورہی ہے۔کہیںسے کوئی راحت کی خبر
نہیں آرہی ہے تو ترکی میں امید کی ایک کرن چمکی ہے۔ کسی کو یہ امید نہیں
تھی کہ اس الٹراسیکولر ملکمیں ایک اسلام پسند رہنما انتخاب کے پہلے ہی مرحلے میں
واضح اکثریت سے صدرمنتخب ہوجائے گا اور اس کے حریفوں کیجماعتوں کا
اتحادہزارکوششوں ، سمجھوتوں اور مشقتوں کے باوجود ان کو روکنے میں کامیاب تو
کیا، ان کی مقبولیت کے گراف کے قریببھی نہیں پہنچ سکے گی۔
طیب
اردگان نے عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونےوالے ترکی کےپہلے صدر کا اعزاز حاصل
کرلیا۔ترکی کا نظام اب پارلیمانی سے زیادہ صدارتی محسوس ہونے لگا ہے، پہلے صدارتی
انتخابمیں وہ 52 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے قریبی حریف 38.6فیصد اور
تیسریپوزیشن پر آنے والے امیدوار نے 9.6 فیصد ووٹ لیے۔ یہ انتخابی نتائج نہ تو
حیران کنہیں نہ غیرمتوقع۔ گزشتہ ماہ دو بینالاقوامی ایجنسیوں نے رائے عامہ
کے جائزوں میں تقریباً یہی بتایا تھا۔
طیب
اردگان نےجو وزیراعظم ہوتے ہوئے صدارتیامید وار تھے ، اپنی انتخابی مہم میں وہی
کچھ کیا جس کے لیے وہ 2003ء سے کوشاںتھے۔ وہ یقینی جیت کے لیے میدان میں نہیں اترے
تھے، مخالف جماعتوں کے اتحاد اور اسکی سرپرستی دیکھتے ہوئے شکست کا پہلو بھی ان کے
سامنے تھا۔ ناکامی کی صورت میںسیاست چھوڑنے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے اپنی آخری
انتخابی تقریر اپنی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گڑھقونیہ میں کی
تھی۔انہوں نے صدر منتخب ہونے سے پہلے اپنے اہداف کا اعلان واضح طورپر کیا ’’نیا
ترکی‘‘ اورترکی کو زیادہ پر عزم ملک بنانے کا عہد کیا، جمہوریت اورمعیشت کے وعدے
بھی ان کی تقریر میں شامل ہوتے تھے، اُن کے سامنے ترکی کو دنیا کاپر عزم ملک بنانے
کا وعدہ بھی تھا اور خارجہ پالیسی کی بے پناہ وسعتوں کا تذکرہبھی۔ اپنے ملک میں
انصاف کو عالمی معیار سے اوپر لے جانے کا اظہار بھی کیا۔ آخریریلی کے خطاب میں اُن
کی تقریر میں شہریوں میں برابری کا اعلان بھی تھا۔ اب وہچاہتے ہیں کہ ملک کو زیادہ
متحد کریں۔ اُن کے نزدیک ترکی کے 77 ملین لوگوں کےمستقبل کا سوال تھا۔
صدارتی
انتخاب سے ثابت ہو گیا ہےکہ مصطفی کمالپاشا کا ’’نظریہ سیکولر زم‘‘ اب ترکی میں
مقبول نہیں رہا۔ اس کے باوجود طیب اردگانکے مخالف انہیں موجودہ دور کا ترقی یافتہ
سلطان کہہ رہے ہیں، اُن کی اسلام پسندسیاست میں عدم برداشت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے عہد میں اعتدال پسند رجحانات رکھنے والوں کو کافیپیچھے
دھکیل دیا گیا ہے۔ ان تمام الزامات کے باوجود ملک کے عوام نےان کومنتخب کیااور وہ
پہلے مرحلے میں ہی 50 فیصد سے زائد ووٹ لے کر صدرمنتخب ہو گئے۔ ان کے مقابلکمال
الدین احسان مذہبی رجحانات رکھنے والے امیدوار تھے اور ری پبلیکن پیپلزپارٹی
نے جس کے وہ مشترکہامیدوار تھے اردگان کو شکست دینے کے لیے اپنے منشور اور نظریات
کو ترک کر دیاتھا۔حالانکہ یہ پارٹی ’’اتاترک ازم‘‘ کے علاوہ کوئی اور چیز قبول
کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔ اسلامی ثقافت کو ضد سمجھتی ہے۔ اسکے باجود وہ
اردگان کوٹکردینے میں کامیاب نہیں رہی۔
اردگان
کی یہ جیت عالمی منظر پران کے مضبوط کردار کیجیت بھی ہے، انہوں نے فلسطینیوں
پر مظالم کے خلاف سب سے مضبوط آواز اٹھائی، امریکہاور اسرائیل کے پٹھو مصر کے صدر
جنرل (ر) السیسی کی خوب خبر لی، اسرائیل کوللکارااور امریکن جیوش کمیونٹی کے
ایوارڈ کو بے جھجک واپس کر دینے کا اعلان کردیا۔موجودہ منظر نامے میں وہ عالم اسلام
کے لیڈر کے طور پر محسوس کیے گئے اور اس کردارنے بھی صدارتی انتخاب کا پانسہ پلٹ
کر رکھ دیا۔ لیکن اصل سوال یہ نہیں ہے کہ ترکی اب عہداتاترک سے نکل چکا
ہےسوال تویہ کہ کیا عالم عرب بھی اس دلدل سےنکلے گایا کاتب تقدیر نے ابھی
اور بیس برس کا انتظار لکھاہے؟
مضمون نگار : روزنامہ انقلاب پتنہ کے ریزیڈینٹ اڈیٹر ہیں
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔