حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 27 ستمبر، 2012

کیا ملک میں اپوزیشن مو جود ہے؟


  یہ لوگ اپنے دعوے میں کتنے سچے ہیں 
 
 مرکزی سرکار کے حالیہ کچھ فیصلوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یو پی اے کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے آئندہ کچھ عرصے تک حزب اختلاف میں رہنے کا ذہن بنا لیا ہے ۔ کانگریس کا یہ احساس حقائق پر مبنی ہے کیونکہ گزشتہ برسوں میں یو پی اے سرکار نے عوام مخالف فیصلوں کی طویل فہرست تیار کردی ہے جس کی وجہ سے چہار جانب مایوسی اور غم وغصے کی لہر پائی جارہی ہے۔ سبھی متنازع امور پر حلیف جماعتوں سے صلاح و مشورے کرنے والی کانگریس نے خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی کی منظوری دے کر حلیف جماعتوں کی پشت میں خنجر گھونپنے کا کام کیا ہے۔ ملک کے 80فیصد عوام جو بے تحاشا مہنگائی 
کی وجہ سے کرا ہ رہے تھے اب سکتے کے عالم میں ہے۔ سرکار پہلے تو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کو ملک کی شرح ترقی کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے مہنگائی برداشت کرنے کا مشورہ دیتی رہی اور پٹرولیم کمپنیوں پر سے سرکاری کنٹرول ختم کرنے کے ساتھ ہی انہیں کھلی چھوٹ دے دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت کم عرصے میں تیل کی قیمتوں میں سولہ بار اضافہ کیاگیا۔ ایف ڈی آئی کی منظوری سے ٹھیک ایک روز قبل ڈیزل کے دام میں فی لیٹر پانچ روپے اور کھانا پکانے کی گیس پر سے سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کیاگیا یعنی ایک مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسرا مسئلہ پیش کردیاگیا۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ حربہ ہمیشہ استعمال کیاجاتا رہا ہے، ماضی قریب کے کچھ واقعات پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ٹوجی اسکینڈل اور مہنگائی کا سامنا ہوا تو اس سے توجہ ہٹانے کےلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو حربے کے طور پر استعمال شروع ہوا اور کوئلہ بلاک الاٹمنٹ معاملے سے نمٹنے کے لئے افواہ پر مبنی ایس ایم ایس معاملے کو اس قدر طول دیاگیا کہ اسے ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بتاکر پیش کیاگیا ، اس طرح ایک بار پھر سیکورٹی ایجنسیوں نے مسلم نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ درجنوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اس کے باوجود جب کوئلہ بلاک کی گونج تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کامانسون اجلاس نہیں چل سکا تو سرکار نے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اور کھانا پکانے کی گیس پر سے سبسڈی ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی خوردہ سیکٹر میں غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری کو منظوری دیدی ۔ واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سرکار کی نیت کیا ہے۔ جہاں تک خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی کی بات ہے اقتصادی امور کے ماہرین کا بڑا طبقہ سرکار کے اس فیصلے کو ملک کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کے لئے نقصاندہ قرار دے رہا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سرکار نے فوری طور پر خزانے میں سرمائے کی آمد کیلئے ایسا کیا ہے ،اس کاخمیازہ ملک کے اس طبقے کو بھگتنا ہوگا جس کی تعداد 80فیصد ہے لیکن اس کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس سرمایہ کاری سے ملک کے اس بیس فیصد طبقے کو، جس کے پاس سب کچھ پہلے سے ہی ہے ، بہت کچھ دینے کی تیاری ہے۔ یو پی اے نے جس حوصلے اور جرا

¿ت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے اس سے نہیں لگتا کہ ترنمول کانگریس ، کی علاحدگی کچھ رنگ لائے گی، کیونکہ ایوان میں جب مخالفت کی بات آئے گی تو سبھی جماعتیں فرقہ پرست سیاسی قوتوںکا ساتھ نہ دینے کے اپنے دیرینہ موقف کو دہراتے ہوئے بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار کرلیں گی جیسا کہ سماجوادی نے کیا ہے اور اس طرح کانگریس کو بلا واسطہ تقویت پہنچے گی کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی مہنگائی اور ایف ڈی آئی کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ تو اس طرح کے مواقع کا فائدہ اٹھاکر سرکار کو گرانا چاہتی ہے۔ ایف ڈی آئی تو ان کے انتخابی منشور میں بہت پہلے سے شامل ہے۔ اسی طرح امریکہ اور اسرائیل سے اسٹریٹجک تعلقات بنانا تو بی جے پی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ لیکن یہ سب وہ اپنے دور اقتدار میں کرناچاہتی ہے ۔ دراصل اس وقت ملک میں حزب اختلاف عملاً موجود نہیں ہے اور شاید یہی ملک کی جمہوریت کےلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ نیز ملک کی ۸۰ فیصد آبادی کی نمائندگی پارلیمنٹ میں نہیں ہورہی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ مرکز کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف ملک کے کسی حصے میں منظم تحریک پرپانہیں ہوپارہی ہے ملک کا غریب وہ طبقہ جو اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے اس کی قیادت سنبھالنے کے لیے ملک کی ایک ہزار سے زائد سیاسی تنظیموں میں سے کوئی آگے کیوں نہیں بڑھ رہا ہے ۔ جس میں کمیونسٹ جماعتیں بھی شامل ہیں جن کا وجود ہی غریب طبقہ کی سیاست پر منحصر ہے ۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ نیوکلیر ڈیل کے خلاف بڑا شور شرابہ کیا گیا ، سمپوزیم اور سمیناروں کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے لیکن ملک گیر سطح پر مہم چلانے کی دھمکی دینے والی سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس کے ذریعہ عوام کو بیدار کرسکیں اور انہیں اپنے ساتھ لی کر کام کریں ، دوسرا موقع ہم جنس پرست سے متعلق قانون بنانے کی مخالفت کا تھا سواقت بھی اقدار کی دہائی دینے والے گروپوں نے پرس کانفرنسوں کے ذریعہ واویلا مچایا لیکن کوئی کارگر مہم نہیں چل سکی ، اور 2008سے لگاتار مہنگائی کی مار برداشت کرنے والی ملک کی 80فیصد آبادی کوئی پریشر بنانے میں ناکام رہی ہے ۔ اسی انتشار کا فائدہ اٹھا کر مرکزیکے بعد دیگرے عوام مخالف فیصلے لیتی رہی ہے نیز مستقبل قریب میں کچھ اور سخت فیصلے لینے کا واضح اشارہ دے دیا ہے ۔

E-mail: ashrafbastavi@gmail.com

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔