حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

اتوار، 4 نومبر، 2012

ویلفیئر پا رٹی کا مستقبل روشن ہے / مجتبیٰ فاروق


         خصوصی انٹر ویو                

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کا قیام 18اپریل 2011ءکوعمل میں آیا تھا ، اب ڈیڑھ برس مکمل ہوچکے ہیں۔ پارٹی نے قیام کے وقت پہلے مرحلے میں دو سال کے لئے کچھ اہداف طے کئے تھے ان کے حصول میں وہ کس حد تک کامیاب رہی ہے، یہ جاننے کے لئےاشرف علی بستوی نے پارٹی کے کل ہند صدر" جناب مجتبیٰ فاروق سے دہلی میں یہ خاص بات چیت کی ہے ۔
 مجتبیٰ فاروق اپنے دفتر میں        
س: ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قیام کو اب ڈیڑھ برس ہوچکے ہیں، پارٹی نے 18 اپریل2011ءکو دارالحکومت دہلی کے ماﺅلنکر ہال میں جن اہداف کو طے کیا تھا ان کے حصول میں وہ کس حد تک کامیاب رہی ہے؟
ج دیکھئے سیاسی جماعت بنانا اور چلانا بہت بڑا کام ہے ، اسے کسی این جی او کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسی کئی پارٹیاں ہیں جو دہائیوں سے ملک کی سیاست میں سرگرم عمل ہیں اورعلاقائی پارٹی کے طور پر مضبوط قوت ہیں لیکن وہ ایک خاص علاقے یا ریاست تک ہی محدود ہیں جن میں ترنمول کانگریس، سماجوادی پارٹی اور جنوبی ہند کی متعدد پارٹیاں شامل ہیں، کسی ایک ریاست میں سیاسی پارٹی کو مضبوط کرلے جانا بہت بڑا ہدف ہوتا ہے۔ ہمارا ٹاسک قومی سطح کا ہے، اس اعتبار سے ڈیڑھ برس کی مدت کار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ہم نے ملک کی گیارہ ریاستوں میں پارٹی کو متعارف کرانے کا ہدف طے کیا تھا جس کے لئے دو برس کی مدت کار طے کی گئی تھی۔ جنوبی ہند کی چار ریاستوں تمل ناڈو، کیرالا، کرناٹک اور آندھراپردیش کے علاوہ اترپردیش، راجستھان، مغربی بنگال اور آسام میں باقاعدہ صوبائی یونٹوں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ آئندہ چھ ماہ میں بہار، مہاراشٹر اور دہلی میں کام شروع ہونا ہے۔ اس طرح دو برس کی مدت کار میں کل گیارہ ریاستوں میں پارٹی کے تعارف کا کام مکمل کرلیاجائے گا۔ پہلے مرحلے میں کیرالا، کرناٹک اور مغربی بنگال سے کام کا آغاز کیاگیا ہے ان تینوں مقامات پر حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ان ریاستوں میں ہمارا کام پارلیمانی اور اسمبلی حلقہ جات سے لے کر وارڈ کی سطح تک تکمیل کے مرحلے میں ہے۔

س:سیاست کے میدان میں آپ کی پارٹی کی شناخت کیا ہوگی نیز کیرالا میں پارٹی کی کارکردگی بہتر ہونے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
ج: ویلفیئر پارٹی ملک میں انصاف کی لڑائی لڑنے والی پارٹی کے طور پر ابھرے گی۔ ہمارا مقصد کمزوروں کے مفادات کا تحفظ اور اقدار پر مبنی سیاست کو فروغ دینا ہے۔ کیرالا میں پارٹی کی بہتر کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مسلم لیگ کے میدان میں موجود ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی سیاسی توقعات بڑی حد تک پوری ہورہی ہیں۔ یہاں مسلم سیاسی جماعت کی حمایت کا ذہن بہت پہلے سے بنا ہوا ہے یہاں کے عوام کو اعتماد میں لینا زیادہ آسان ہے بہ نسبت ان علاقوں کے جہاں مسلمانوں کے پاس اپنا سیاسی متبادل موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیرالا میں ہماری پارٹی کا کام بہتر ڈھنگ سے ہورہا ہے یہاں چالیس تا پچاس فیصد غیر مسلم افراد پارٹی میں شامل ہیں، اس کی تازہ مثال اس وقت دیکھنے کو ملی جب گزشتہ دنوں پارٹی نے ایک عوامی ریلی کا اہتمام کیا جس میں دس ہزار سے زائد لوگوں کی شمولیت رہی مسلم اور غیر مسلم سبھی شامل ہوئے۔ یہ پبلک مارچ سکریٹریٹ تک کا تھا ۔مارچ کا ایشو ایسا تھا جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ اس موقع پر عوام مخالف سرکاری پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی گئی ۔
س: مغربی بنگال میں جنگی پورہ پارلیمانی حلقے کے لئے گزشتہ دنوں ضمنی انتخاب ہوا ہے، ویلفیئر پارٹی نے بھی اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا، کیا کارکردگی رہی؟
ج: قابل غور بات یہ ہے کہ اس پارلیمانی حلقے سے سابق وزیرخزانہ موجودہ صدر جمہوریہ جناب پرنب مکھرجی نے ایک لاکھ ستائیس ہزار ووٹوں سے جیت درج کی تھی، ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادے محض ڈھائی ہزار ووٹ سے کامیاب ہوسکے، اس پہلو پر میڈیا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟یہاں بایاں بازو کی جماعت سی پی ایم کے امیدوار کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔نتائج سے دونوں پارٹیوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر ویلفیئر پارٹی میدان میں نہ ہوتی تو نتائج کچھ اور ہوتے ۔ ویلفیئر پارٹی کو اکتالیس ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ ملے اور SDPI کے امیدوار کو چوبیس ہزار ووٹ حاصل ہوئے ۔ وسائل کی کمی کے باوجود ووٹ ملنا ایک مثبت اشارہ ہے۔
س:پارٹی اب تک کن کن مقامات پر انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اور اس کی نوعیت کیا رہی؟
ج:پارٹی کے قیام کے بعد ہمیں پہلا موقع تملناڈو کے لوکل باڈیز کے الیکشن میں ملا۔ کل19 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے گئے، دو سیٹیں ہمارے حصے میں آئیں اور ایک پر اس امیدوار کو کامیابی ملی جس کی ہم نے تائید کی تھی، بقیہ سیٹوں پر ہماری دوسری اور تیسری پوزیشن رہی، دوسرا موقع اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے کا تھا یہاں ہم نے لوگوں کی خواہش پر پانچ اسمبلی حلقوں سے امیدوار کھڑے کئے تھے ،اس کے بعد یوپی میں لوکل باڈیز کے انتخابات کا موقع آیا ، الٰہ آباد سمیت کل چھ سیٹوں پر ہمارے امیدواروں نے حصہ لیا، جس میں تین افراد کامیاب ہوئے اور ابھی حال میں مغربی بنگال کے جنگی پورہ کا ضمنی الیکشن ہوا جس میں ویلفیئر پارٹی نے شرکت کی کافی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
س: غیر مسلم ووٹروں کو ساتھ لینے میں ویلفیئر پارٹی کس حد تک کامیاب ہوئی ہے؟
ج: پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان میں غیر مسلمین کی شمولیت کا تناسب بہتر ہے البتہ عوامی سطح پر غیر مسلم حضرات کے درمیان ہماری دسترس ابھی کمزور ہے۔ اس تعلق سے کیرلا میں ہماری گرفت کافی مضبوط ہے یہاں عوامی سطح پر بھی غیر مسلمین ہمارے ساتھ تیزی سے وابستہ ہورہے ہیں، ویلفیئر پارٹی میں غیر مسلمین کی دلچسپی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا ایجنڈا انسانی بنیادوں پر ہے جس کو تمام لوگوں کی فلاح
 وبہبود اور ان کے مسائل کے پیش نظر ترتیب دیا گیا ہے۔
س: آپ کی پارٹی نے مکمل انصاف کا نعرہ دیا ہے اس سے آپ کیامراد لیتے ہیں؟
ج: مکمل انصاف کا مطلب یہ ہے کہ جس کا کتنا حق ہے اس کو یقینی طور پر ملنا چاہئے، ہر شخص معاشرے میں عزت و احترام سے زندگی بسر کرسکے، انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر خاص وعام کو ایک نظام کا پابند بنایا جائے، ہر ایک کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم ہوں، ملک کی عدلیہ، پولیس اور اقتصادی شعبے سمیت دیگر میں ضروری اور لازمی اصلاحات لانے کا عمل شروع ہو، خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی پر ہم اس لئے اعتراض کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے ملک کی بڑی آبادی کو معاشی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ امریکی کمپنی وال مارٹ میں، جس کی ملکیت 450بلین ہے ، صرف 21لاکھ افراد کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ ہندوستان کی ریٹیل مارکیٹ420 بلین ڈالر کے قریب ہے اور اس میں وال مارٹ سے دس گنا زیادہ افراد کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس لئے ہم ایسی کسی ترقی کے قائل نہیں ہیں جس میں سبھی کی شمولیت نہ ہو۔
س: روز بروز بڑھتی مہنگائی کے خلاف پارٹی کا کیا لائحہ عمل ہے اور ملک کی موجودہ معاشی پالیسیوں کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
ج: ملک اس وقت بین الاقوامی تاجروں کے ہاتھوں فروخت کیا جارہا ہے، جو لوگ سرکار کی ان پالیسیوں کی مخالفت کر رہے تھے اب انہیں کنارے لگا دیا گیا ہے۔ منی شنکر ایئر اور نٹور سنگھ اس کی مثال ہیں۔ منموہن سنگھ نے جو اقتصادی پالیسی نرسمہاراﺅ حکومت کے دور میں شروع کی تھی اب اپنے دور اقتدار میں وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ آئی ایم ایف کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں اس لئے عوامی مفادات کا تحفظ ان کے ذریعے ہوہی نہیں سکتا لہٰذا یہ لوگ ایسی ترقی کو قطعی پسند نہیں کرتے جس میں سبھی باشندوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ مرکزی سرکار کو حمایت کرنے والی وہ پارٹیاں جو سماجواد کا نعرہ دیتی ہیں وہ اس وقت خاموش ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے کمزور پہلوﺅں پر کبھی بھی گرفت ہوسکتی ہے۔ ایک طرف خوف دوسری جانب ان کے مفادات یو پی اے کا ساتھ دینے پر انہیں مجبور کرتے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ ابھی گزشتہ دنوں سماج وادی کے اہم لیڈر شیوپال سنگھ یادو اسرائیل کا دورہ کرکے لوٹے ہیں اس دورے کے مقاصد کیاتھے واضح نہیں کئے گئے، دراصل یہ لوگ اہل ملک کے حق میں مفید نہیں ہیں۔

س: کیا 2014 کے عام انتخابات سے قبل تیسرے مورچے کے قیام کا امکان ہے؟ اگر ہاں تو آپ کی پارٹی کا کیا موقف ہوگا؟
ج: جی ہاں تیسرے مورچے کی ضرورت اہل ملک شدت سے محسوس کرر ہے ہیں کیونکہ یو پی اے اور این ڈی اے دونوں پر لوگوں کو اعتماد نہیں ہے۔ لیکن دشواری یہ ہے کہ تھرڈ فرنٹ کے شرکاءمیں ملائم سنگھ جیسے بعض لوگ انتہائی درجہ مفاد پرست ہیں لیکن اس کے باوجوداس جانب اہم پیش رفت ہونے کا قوی امکان ہے۔ یہ تبدیلی ضرور آئے گی، ہماری کوشش ہوگی کہ2014سے قبل ویلفیئر پارٹی اس سطح پر آجائے اور ہم ایک مو

¿ثر طاقت بن کر ابھر سکیں ۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہماری کوشش ہوگی کہ تیسرے مورچے کا حصہ بنیں۔

س: بدعنوانی مخالف انا ہزارے کی تحریک پر آپ کی رائے کیا ہے ۔ کیا اس تحریک سے آپ کی پارٹی کو مستقبل میں کوئی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے؟
ج:ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک نے ملک میں جو بے چینی پیدا کی ہے اس کی وجہ سے صاف ستھری شبیہ رکھنے والی سیاسی قوتوں کے لئے مواقع فراہم ہوں گے۔ انا تحریک نے بدعنوانی کے خلاف ذہن سازی کا کام کیا ہے۔ اس درمیان اگر ہم عوام کے درمیان ان مسائل کا جامع حل پیش کرنے والا منصوبہ لے کر آئیں گے تو اس کا فائدہ ہمیں ضرور ملے گا، نیز ایسے تمام گروپ جو ایک ہی مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ان میں باہم تعاون کا موقع فراہم ہوگا۔ ہمیں اپنا مستقبل روشن نظر آرہا ہے ۔
س:کیا ملک میں وسط مدتی انتخابات کے امکانات ہیں؟
ج:ہمارے خیال میں فی الوقت وسط مدتی انتخابات کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ جو لوگ سرکار کی مخالفت کر رہے ہیں ان میں بیشتر پارٹیاں ابھی الیکشن نہیں چاہتیں، ان کی کمزوریاں مرکز کے سامنے ہیں اس لئے وہ کوئی تنازع کھڑا کرنا نہیں چاہتیں اور بعض ایسی ہیں جو اقتدار کا بھرپور لطف اٹھانا چاہتی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یو پی اے کمزور ہوکر آئے گی اور اس کا انحصار دوسری پارٹیوں پر ہوگا، ہندوستان کے تناظر میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جب جب کسی ایک پارٹی کو مضبوطی حاصل ہوئی ہے عوام کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس لئے مرکز کی کمزور سرکار کو عوام کے حق میں بہتر کہا جاتا ہے۔
E mail: ashrafbastavi@gmail.com




0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔