حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

بدھ، 20 فروری، 2013

منتری جی ، خدا را آپ ا پنا موقف تبد یل نہ کیجیے گا

مرکزی وزیر مملکت جناب طارق انور صاحب 
انڈین مجاہدین کا ہیڈکوارٹر کہاں ہے؟ جب دہشت گردی کے نام پر سیمی پر پابندی عائد کرنے کے لیے حکومت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاسکتی ہے تو کون سی چیز ہے جو اسے آر ایس ایس پر کارروائی کرنے سے روک رہی ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں دوہرا معیار کیوں؟ انڈین مجاہدین کا سرغنہ کون ہے؟ اس کا ہیڈکوارٹر کہاں ہے اور اسے اب تک سیل کیوں نہیں کیاگیا؟‘‘ یہ چند اہم سوالات ہیں جو یوپی اے سرکار کے مرکزی وزیر مملکت برائے
زراعت و خوراک و رسد جناب طارق انور نے اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں اٹھائے ہیں۔ یہ مضمون روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو میں 14؍فروری کو شائع ہوا تھا۔ فاضل تجزیہ نگار نے عام انتخابات سے کچھ ماہ قبل یوپی اے سرکار سے راست سوالات کرکے اس کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ اس تجزیے کے ساتھ ہی انھوں نے اپنا نام ملک کے ان لیڈروں کی فہرست میں شامل کرالیا ہے جو سرکار سے سوالات تو کرتے ہیں لیکن جواب نہ ملنے کی صورت میں بھی سرکار کے مفادات کے تحفظ کے لیے کمربستہ رہتے ہیں، لہٰذا اب طارق انور صاحب بھی دگ وجے سنگھ، منی شنکر ایئرکی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جو آر ایس ایس پر پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں۔

قارئین کو بتا دیں کہ ہم نے اپنے اس کالم کی ترتیب کے دوران اس فہرست میں کل تک مرکزی وزی داخلہ سشیل کمار شندے کا نام سب سے اوپر رکھا تھا لیکن کل اچانک بھگوا دہشت گردی سے متعلق ان کے اس بیان کی تردید کے بعد جس میں انہوں نے بھگو ا بر یگیڈ کو دہشت گردانہ کار روائیوں میں ملوث قرار دیا تھا یک لخت سنگھی سیاسی ٹولے کے دباؤ میں معافی ما نگنے کے بعد ہٹانا پڑا ، قابل افسوس امر یہ ہے کہ کل تک مرکزی وزی داخلہ اپنے بیان پر قائم تھے ،اور ان کے موقف کی تائیدمیں دگ وجے سنگھ جیسے قد آور لیڈر بیانات پر بیانات دے رہے تھے ،سب سے اہم بات یہ ہے کہ داخلہ سکریٹری آ ر کے سنگھ ثبوتوں کی فائلیں لیے دست بستہ شندے صاحب کے ساتھ کھڑے تھے، تو سوال یہ کہ آخر ثبوتوں کی بنیاد پر دیے گئے اپنے بیان پروزیر موصوف کو کس بات نے معافی مانگنے پر مجبور کیا ۔کیا بجٹ اجلاس کو بخیر و خوبی چلانے کے پیش نظر یہ معافی مانگی گئی ہے ،آخر ماجرا کیا ہے ؟ بہر حال یہ معاملہ کانگریس کا ہے اور اس کا جواب اسے ملک کے عوام کے جذبات کی تسکین کے لیے دینا چاہیے خصوصا مسلم اقلیتوں کو مطمئن کرنے کے لیے ۔ جیسا کہ ماضی قریب میں کئی اہم فیصلے عوام کے جذبات کے پیش نظر لیے گئے ہیں۔ 

یہاں ان چند سطور کا اضافہ اس لیے کرنا پڑا تاکہ پورے معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہو، ورنہ ہمارے ے تبصرے کا مرکزی موضوع طارق انور صاحب ہی ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے طارق انور صاحب اپنے اعلان شدہ موقف پر کب تک قائم رہ پاتے ہیں ، موصوف نے جن سوالات کو اٹھایا ہے وہ سوالات طویل عرصے سے ملک کے انصاف پسند افراد اٹھاتے رہے ہیں، جن میں مسلمان اور غیرمسلم کی بھی کوئی قید نہیں رہی ہے۔ ایسے درجنوں غیرمسلم کالم نگار ہیں جنھوں نے بارہا اپنی تحریروں کے ذریعے سرکار کو دہشت گردی سے نمٹنے کے طریق کار کو بدلنے اور سیاسی قوت ارادی کا عملی مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔بلاشبہ وہ سوالات جو ایک طویل عرصے سے ایک سنجیدہ طبقہ اٹھاتا رہا ہے، وزی
موصوف نے بھی انھیں چھیڑکر مظلومین کو فوری طورپر ذہنی سکون تو فراہم کیا ہے لیکن مکمل اطمینان تو اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ان سوالات کا جواب مل جائے، لہٰذا وزیر موصوف اگریہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک خاص طبقے کو دہشت گردی کے نام پر بے جا پریشان کیا جارہا ہے تو انھیں چاہیے کہ اپنے ان سوالات پر سرکار میں شامل ان تمام لوگوں کو ساتھ لیں جو اِن سوالات کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ سرکار پر عملی اقدامات کرنے کے لیے دباؤ بنانے کا یہ مناسب وقت ہے، ورنہ یہ سوالات جواب طلب ہی رہ جائیں گے۔ 



0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔