بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ یوں تو انگریزوں کے دور اقتدار میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن آزادی کے بعد اس میں مزید تیزی آگءی اب تک ملک میں چالیس ہزار سے زاءدفرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں جن میں ملک کی اقلیتوں مسلم ،سکھ عیساءی ،دلت ،آدی باسی غرضیکہ کمزور طبقات کو منظم ڈھنگ سے نشانہ بنایاگیا، برسر اقتدار یو پی اے سرکارنے ۲۰۰۴میں اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیےانسداد فرقہ وارانہ فسادات قانون ً بناءے گی ، سرکار نے بل تو ڈرافٹ کرا لیا ہے لیکن ابھی تک اسے ایوان میں پیش نہیں کیا ہے ، آءندہ برس عام انتخابات ہو
نے ہیں اور سرکار کا آخری پارلیامنٹری اجلاس جاری ہے ، اب اگر اس سیشن میں بھی یہ بل نہیں پیش کیا
گیا ، تو پھر کب ہوگا ؟ سرکار کیوں پیش نہیں کر رہی ہے یہ اور اسطرح کے سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نےدہلی سے شاءع ہونے والےموقر اخبار ًسہ روزہ دعوت ً کے جاءزے کے لیے
ملک کے اہم سیاسی ،سماجی اور قانونی ماہرین سے
انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل ۔۔ پیش کرنے میں تاخیر کیوں
کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکار سیاسی قوت ارادی سے کام لے
ہرش مندر، جوائنٹ کنوینر بل ڈرافٹنگ کمیٹی

یہ بل کمزوروں کو تحفظ فراہم کرنے والا ہے
پی آئی جوس، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ورکن بل ڈرافٹنگ کمیٹی
انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل ڈرافٹ کافی ریسرچ کے بعد تیار کیاگیا تھا اس میں سرکاری اداروں کے ذمہ داروں کی جانب سے کی گئی ترمیمات کو بھی بڑی حد تک اس میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن سرکار نے اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بجائے نیشنل انٹگریشن کونسل کو بھیج دیا اور اس بل پر جس وقت یہاں بات شروع ہوئی تو اس وقت سب سے افسوسناک بات یہ ہوئی کہ اقلیتی کمیشن کے چیئرمین وجاہت حبیب اللہ کو اپنی بات رکھنے کا موقع ہی نہیں دیاگیا۔ بی جے پی اور اس کی ہمنوا جماعتوں نے بے جا الزامات عائد کرنے شروع کردیے، اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکومت خود معاملے کو ٹھیک ڈھنگ سے حل کرنا نہیں چاہتی اور ملک میں کمزور طبقات شدت پسندوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ فرقہ وارانہ فسادات اس کی مثال ہیں۔ کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں کے برسراقتدار ریاستوں میں تازہ فسادات ہوئے ہیں۔ اس ڈرافٹ میں معاوضہ اور یلیف وباز آبادکاری میں ملک کے ہر شہری کو شامل کیاگیا ہے جس کے جان ومال کا نقصان فرقہ وارانہ فساد میں ہوا ہو اس میں ہندو اور دیگر میں کوئی فرق نہیں کیاگیا ہے۔ ہاں یہ بل ان لوگوں کے خلاف ہے جو ملک میں نفرت کی سیاست کرتے ہیں اور کمزور طبقات کو نشانہ بناتے ہیں، خوف کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کا اس بل سے خوف زدہ ہونا فطری ہے کیوں کہ اس بل سے ان پر قانون کی گرفت مضبوط ہوگی۔
ملک میں آج تک جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں اس میں ادارہ جاتی تعصب کا خاص دخل رہا ہے۔ ملک کے انتظامی امور جس میں پولیس اور دیگر محکمے آتے ہیں متاثرہ افراد یا گروپ جب ان کے پاس شکایت کے لئے جاتے ہیں تو وہاں تعصب برتا جاتا ہے۔ فوری طور پر قانونی مدد فراہم نہیں کرائی جاتی جس کی وجہ سے تشدد برپا کرنے والے آزادانہ طور پر فساد کو انجام دیتے ہیں۔ اسی کو ادارہ جاتی تعصب کہتے ہیں۔ اس بل میں اس پر روک لگانے کے لئے انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ جو غلط کرے اس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاسکتا ہے جب کہ اس سے قبل سرکاری افسران کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے سرکار سے پہلے اجازت لینا لازمی تھا ۔یہ بل کمزوروں کو تحفظ فراہم کرنے والا ثابت ہوگا۔ بل میں راحت اور باز آبادکاری کا بھرپور نظم ہے جس میں سبھی کو برابر شریک کیاگیا ہے، ہلاکت کی صورت میں اہل خانہ کو پندرہ لاکھ دینا ہوگا۔
یہ ملک جمہوری ہے، یہاں عوام کی آواز کی اہمیت ہے ۔ اس لئے سبھی لوگوں کو ایک ساتھ مل کر آواز بلند کرنی چاہئے ۔ہم نے جس دن سرکارکو یہ احساس کرادیا کہ ملک میں بسنے والے ایک بڑے طبقے کا یہ مطالبہ ہے کہ اس بل کو قانونی شکل دی جائے تو پھر ہماری بات پر غور ہوگا، اقلیتیں اور دلت مل کر اس کا مطالبہ کریں تو بات میں وزن پیدا ہوگا۔
گفتگو پر مبنی
ذہن سازی کا کام جاری ہے
راشد علوی ،ممبر آف پارلیمنٹ، کانگریس پارٹی

0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔