حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 31 مئی، 2013

لیاقت شاہ معاملہ : تو پھر ہوٹل میں دھماکہ خیز مادہ کس نے رکھا تھا ؟



گزشتہ ہفتے بھارتی میڈیا میں ملک کی سلامتی اور تحفظ سے متعلق ایک انتہائی اہم خبرآئی، لیکن ایک خاص طبقے کو ہی نشانہ بنانے والے کارپوریٹ میڈیا کی اس خبر میں کوئی دلچسپی نہیں رہی جب کہ یہ واقعہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہے۔ اس واقعے نے ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کے فرضی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔  اس واقعے کے تجزیے سے پتہ چلتاہے کہ یہ سیکورٹی ایجنسیاں کس طرح ملک کی سلامتی سے کھلواڑ کررہی ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق جب چاہتی ہیں کسی بھی شہری کو خونخوار دہشت گرد بناکر ملک کے سامنے پیش کردیتی ہیں اور اس کے عوض انہیں پرموشن اور بہادری کے تمغوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔
لیکن اِس معاملے میں ایجنسیوں کے درمیان باہم تال میل نہ ہونے کے سبب یہ معاملہ بہت جلد طشت ازبام ہوگیا۔ بات 20؍مارچ 2013کی ہے دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے ہولی کے موقع پر دارالحکومت دہلی میں ایک بڑا دہشت گردانہ واقعہ پیش آنے کا جعلی منصوبہ بنایا، اسپیشل سیل کے کارندوں نے 20؍مارچ کو اترپردیش کے گورکھپور ضلع سے بھارت نیپال سرحد پار کرتے ہوئے حزب المجاہدین کے تائب عسکریت پسند کشمیری شہری لیاقت علی شاہ کو جو کشمیر سرکارکی بازآبادکاری پالیسی کے تحت کشمیر پولیس کی نگرانی میں نیپال کے راستے خودسپردگی کرنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کشمیر لوٹ رہاتھاکو سنولی سرحد پر گرفتار کرلیا۔ انجام سے بے خبر دہلی اسپیشل سیل کے کارندوں نے لیاقت علی شاہ کو گرفتار کرکے ملک کو گمراہ کن اطلاع یہ دی کہ یہ خطرناک دہشت گرد ہولی کے موقع پر دہلی میں بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کی سازش کررہا تھا۔ لیکن گرفتاری کے بعد جموں وکشمیر سرکار کے سخت رخ کے بعد وزارت داخلہ نے فوری طورپر اس معاملے کو 28؍مارچ کو قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے سپرد کردیا۔ ڈیڑھ ماہ کی جانچ کے بعد این آئی اے نے عدالت میں لیاقت کے خلاف کسی بھی طرح کا ثبوت نہ پانے کا اعتراف کرلیا جس کے بعد اسے 16؍مئی کو ضمانت پر رہا کردیاگیا۔

این آئی اے کی جانچ میں اس اعتراف کے بعد کہ لیاقت علی شاہ کاکسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی کسی دھماکے کی سازش کا پتہ چلتاہے، اس اعتراف نے دہلی اسپیشل سیل کے تمام دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس پورے واقعے کے تجزیے سے بڑا سوال یہ اٹھتاہے کہ دہلی اسپیشل سیل نے دہلی کی جامع مسجد کے قریب حاجی عرفات گیسٹ ہاؤس کے کمرہ نمبر 304سے 22؍مارچ کو رات ساڑھے دس بجے کے قریب چھاپہ مارکر جو رائفل، ہینڈگرینڈ اور دو کلودھماکہ خیز مادہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیاتھا، وہ کہاں سے آیاتھا اور کس نے رکھا تھا ؟ اسپیشل سیل نے اس وقت یہ بھی دعویٰ کیاتھا کہ حزب المجاہدین کے دہشت گرد، افضل گرو اور اجمل قصاب کی پھانسی کا بدلہ لینے کی نیت سے دہلی کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ بہرکیف اس واقعے میں دہلی اسپیشل سیل کے دعووں اور این آئی اے کی تفتیش میں جو تضاد سامنے آیا ہے، اس نے سیکورٹی ایجنسیوں کی فرضی کارناموں کو عوام کے سامنے ظاہر کردیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے ان افسران کے خلاف کارروائی کون کرے ؟، جنھوں نے ملک کو گمراہ کیا اور ایک بھارتی شہری کو بے جا مجرم ٹھہرانے کا قصور کیا ہے۔ لیاقت علی شاہ کی گرفتاری کے وقت پولیس کی فرضی کہانیوں کو من و عن پیش کرنے والے میڈیا نے رہائی کے وقت پولیس کے تمام دعووں کی قلعی کھلنے کے بعد اس خبر میں دلچسپی کیوں نہیں لی۔ اب  میڈیا پولیس کے دعووں پر سوال کیوں نہیں اٹھارہا ہے؟ ہوٹل میں ملنے والے دھماکہ خیز مادوں کی تفتیش میں کوئی دلچسپی کیوں نہیں لے رہاہے؟ اس کے علاوہ انتہائی تشویشناک دعویٰ جو لیاقت نے اپنے وطن پہنچ کر کیاہے، اس کی بھی جانچ ہونی چاہیے۔ لیاقت نے دعویٰ کیاہے کہ پولیس اس کو فرضی انکاؤنٹر کے ارادے سے شہر سے باہر لے گئی تھی لیکن اس وقت جب گولی چلائی جانے والی تھی، میڈیا کی کوئی گاڑی آتی ہوئی نظر آئی جس کی وجہ سے پولیس نے اس کو جلدی میں گاڑی کی سیٹ کے نیچے دھکیل دیا اور گاڑی لے کر فرار ہوگئی یہ ایک سنگین الزام ہے جس کی جانچ ہونی چاہیے۔



0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔