حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 19 جون، 2014

ہمیں اپنی ذمےد اریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے/ محمد احمد


خصوصی انٹر ویو:-

ملک میں ہونے والے سولہویں لوک سبھا کے عام انتخابات کے غیر متوقع نتائج آنے کے بعد سے یہ بحث زور پکڑنے لگی ہے کہ اب بی جے پی کی قیادت  والی حکومت کا رویہ یہاں بسنے والے بیس کروڑمسلمانوں کے تئیں کیا ہو گا ؟ کیا  سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ بلند کرنے والی مودی سرکار مسلمانوںکی فلاح و بھبود کے لیے اقدامات کرے گی ؟  مسلم اقلیتوں کو کن   خدشات کا اندیشہ  ہے اور اس کی بنیاد کیا ہے ؟ وہ سیاسی و سماجی گروپ جنہوں نے بی جے پی کو روکنے کے لیے جی توڑ کوشش کی تھی اب ان کو کیا  مسائل پیش آسکتے ہیں ؟ یہ اور اسطرح کے دیگر سوالات کا جواب جاننے کے لیے نئی دہلی میں اشرف علی بستوی  نے ملک کی اہم مسلم جماعت ، جماعت اسلامی ہند  کے مرکزی سکریٹری برائے ملکی و ملی مسائل  محمد احمد  صاحب سے " عام انتخابات کے نتائج – اندیشے اور امکانات " پریہ چند سوالات کیے  اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ بدلے ہوئے حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کا موقف کیا ہو؟ نئی سرکار سے رابطے کی کیا صورت اختیار کی جائے ۔

س  :-  عام انتخابات کے نتائج پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ج  :-عام انتخابات کے نتائج کو عام طور پر ملک میں قبول کیاگیا ہے۔ نتائج نے واضح کیا ہے کہ ملک کا جمہوری مزاج مزید پختہ ہوا ہے اور عوام اظہاررائے کی آزادی کا استعمال کرنا سیکھ گئے ہیں۔
انتخابی نتائج سے اس کااظہار بھی ہوتا ہے کہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کی ذمے داری سے اعراض، گرانی پر کنٹرول سے عدم دلچسپی ، عوام کی جان ومال ،عزت و آبرو کے تحفظ کے مسائل سے بے پروائی، ملکی مسائل آہستہ آہستہ کارپوریٹ ورلڈ کے حوالے کرکے خودعیش کرنے کے مزاج، ملک کی بیس کروڑ مسلم آبادی کے مسائل پر اُن سے گفتگو بھی نہ کرنے کی روش اور ملک کی خارجہ پالیسی میں ان کے احساسات و جذبات کو یکسر نظرانداز کرنے کی پالیسی نے بھی کانگریس پارٹی کو اس کی موجودہ عبرت ناک صورت حال سے دوچار کیا ہے۔
س  :-   بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی کامیابی کی اصل وجہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟
ج  :-  بی جے پی کی حقیقی قوت ہندوستان میں صرف دو ممبران پارلیمنٹ  تک محدود تھی۔ گزشتہ پچیس سالوں میں نفرت، تشدد اور دہشت گردی کے رتھ کے توسط سے پارٹی کے پیغام کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ موجودہ پارلیمانی الیکشن میں پورے سنگھ پریوار اور بی جے پی کی تمام ذیلی تنظیموں نے اپنی مکمل قوت جھونک دی۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے غالب طبقے نے نریندر مودی کے حق میں اپنی تمام خدمات شاید بلا قیمت پیش نہیں کر رکھی تھیں۔ الیکشن کی الیکٹرانک مشینوں کی کارکردگی مشتبہ قرار دی جارہی ہے۔ اسرائیل اور اس کی بدنام زمانہ دہشت گرد خفیہ تنظیم کی انتخابات میں دلچسپی کا تذکرہ بھی ہورہا ہے۔ بی جے پی کو فرقہ پرست قرار دے کر برسوں اس سے قطع تعلق کئے رکھنے والے بعض لوگ راتوں رات اس کی پاکیزگی کے قائل ہوکر اس کے ساتھ ہوگئے۔ کئی سوشلسٹوں تک نے گزشتہ کئی سالوں سے بی جے پی کو قوت فراہم کی۔ سیکولر پارٹیوں نے بی جے پی کو حاصل شدہ 31 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں اپنے 69 فیصد اکثریتی ووٹ خوب خوب بکھیرے۔
کہا جارہا ہے کہ کارپوریٹ ورلڈ نے پارٹی سے تعاون کے لئے اپنے خزانے کھول دیے۔ کانگریس پارٹی نے اپنی شکست کا خاموش اعلان کر ہی رکھا تھا۔ یعنی بی جے پی کی کامیابی کے تمام ظاہری اسباب کی موجودگی میں وہ کیوں نہ کامیاب ہوتی۔

س  :-  ملک میں سیاسی تبدیلی کا یہ دور کتنا طویل ہوسکتا ہے؟
ج  :-   اس کی پیشین گوئی کون کرسکتا ہے۔ عدل وانصاف کا قیام، حقوق کی ادائیگی، سب کے ساتھ یکسانیت ومحبت کا سلوک کسی بھی حکومت کی بقا اور تحفظ کا ضامن ہوسکتا ہے اور ظلم وستم، نفرت و عداوت اور ہوس پرستی و جذباتیت کسی بھی حکومت کے کمزور ہونے اور ختم ہوجانے کا سبب بن سکتی ہے۔ حکومت کے سامنے دونوں راستےکھلے ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ کون سی روش اختیار کرتی ہے؟
س  :- موجودہ وزیراعظم کی قیادت میں بننے والی حکومت سے اندیشے اور امکانات کیا ہیں؟
ج  :-    موجودہ وزیراعظم کا گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حقوق انسانی کے تحفظ کے سلسلے میں ریکارڈ اتنا خراب رہا کہ باوجود کوششوں کے بعض ملکوں نے ان کو اپنے یہاں کا ویزا تک دینا پسند نہیں کیا۔ لیکن بڑی ذمے داریاں عائد ہونے پر انسانوں کے مزاج و عمل میں مثبت تبدیلی ہوتی بھی دیکھی گئی ہے، لہٰذا وزیراعظم سے بھی اپنے عظیم منصب کے شایانِ شان کاموں کا امکان رکھنا مناسب ہوگا۔
س  :-     نئی سرکار نے جس انداز سے کام کا آغاز کیا ہے، اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج   :-نئی سرکار کی بعض باتیں مثلاً وزراء کو اقربا پروری سے بچنے، اپنے اثاثوں کا اعلان، کاموں کے کرنے اور آسائشوں سے بچنے کی تلقین جیسی کچھ اچھی باتیں سامنے آئی ہیں۔ اس کلچر کو فروغ دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ لیکن ایک وزیر کاکرسی پر بیٹھتے ہی یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور کشمیر کو ایک معاہدے کے ذریعے حاصل خصوصی مراعات کے خاتمے کا نعرہ ان کی نادانی اور غیر سنجیدگی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مناسب ہوگا کہ حکومت میں شامل پرچارک حضرات کو یہ باور کرایا جائے کہ اب وہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے ذمے د ار ہیں، لہٰذا مسائل میں متانت، سنجیدگی اور حق پسندی کا ثبوت دیں۔
س  :-  ملک کی اقلیتوں کو بدلے ہوئے سیاسی حالات میں کیا لائحہ عمل اختیار کرناچاہیے؟
ج  :-  ملک کی اقلیتوں کو عام طور پر بڑے مسائل درپیش نہیں ہیں، اگر کسی اقلیت کے کچھ مسائل ہیں تو وہ دوسری اقلیتوں کے تعاون اور اشتراک سے حکومت کے سامنے رکھ سکتی اور انہیں حل کرواسکتی ہیں۔
اصل مسئلہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کا ہے، جس کے آزادی کے بعد ہی سے دینی، تہذیبی، زبان وکلچر، جانی مالی اور تعلیمی ومعاشی حقوق سلب کئے گئے اور ان کا مطالبہ کرنے پر طرح طرح کے طعنے دیے جاتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے تشخص کی بحالی اور اپنے مسائل کے حل کے لئے حکومت پر زور ڈالنا چاہئے۔ البتہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ملی تنظیمیں باہمی اشتراک وتعاون کے ساتھ کریں تو بہتر ہوگا۔ملت کو اپنی سیاسی قوت کو بھی مستحکم کرنے کی فکر کرنی چاہئے اور خیر امت اور داعی گروہ ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمےد اریوں کو ادا کرنے کی مؤثر کوشش کرنی چاہیے.



بصیرت آن لائن ڈاٹ کام

http://baseeratonline.com/2014/06/18/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%AE%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%DA%AF%D8%B1%D9%88%DB%81-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92/

2 تبصرہ کریں:

Admin نے لکھا ہے کہ

اچھا ھےاشرف صاحب اپ کے بلاگ میں بھت دم ھے

s g haque

اردوخبریں بیورو نے لکھا ہے کہ

حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ حق صاحب ، امید کہ رہنمائی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ، اور بہتر کیا ہوسکتا ہے کچھ مزید بتائیں۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔