حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 4 جولائی، 2014

عراق،افغانستان ،مصراورامریکہ


تحریر: احمد جاوید----
عراق میں جس وقت دولت اسلامیہ عراق وشام عظمیٰ(داعش) کی پیش قدمی بغداد کی حکومت اوروزیراعظم نوری المالکی کے ہوش اڑارہی تھی، باغیوں کاا یک وسیع تراتحادتیزی کے ساتھ ملک کے دارالحکومت کی جانب بڑھ رہاتھا اورسرکاری فوجیں پوری بہادری سے لڑتی ہوئیں مورچے پرمورچہ ہارتی جارہی تھیں عین اسی وقت مصرمیں جنرل عبدالفتاح السیسی  ملک کی صدارت کاعہدہ سنبھال رہے تھےاور افغانستان میں طالبان کی قید سے ایک مریکی فوجی بووی رابرٹبرگڈال کی رہائی عمل میں آرہی تھی جس کوطالبان نے اپنے ان پانچ  کمانڈروں کی رہائی کے عوض رہا کیا جوکیوباکےامریکی مرکزحراست گوانتاناموبے میں قید تھے۔  واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس کے سامنے امریکیوں کاایک ہجوم نعرے لگارہاتھا،مظاہرین کے ہاتھوں میں چھوٹی بڑی تختیاں تھیں اور وہ ایساکر کے حکومت پر دباؤ بناناچاہتے تھے لیکن ان کو نہ تو ملاخیراللہ خیرخواہ، ملا نوراللہ نوری اورملامحمدفضل جیسے طالبانرہنماؤں کی رہائی بے چین کر رہی تھی، نہ مصرمیں ایک فوجی جنرل کے ہاتھوں جمہوریت کی پامالی مضطرب کررہی تھی نہ عراق میں خانہ جنگی کی آگ اورداعش کی پیش قدمی کیان کو کوئی فکر ہے، اگران کوبے چینی تھی تواس کی کہ کہیں امریکہ ایک بارپھرعراق کیآگ میں نہ کودپڑے،وہ نعرے لگارہے تھے: ’عراق میں امریکہ کی نئی جنگ نامنظور‘ ، مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں اسی منشاکیچھوٹی بڑی تختیاں بھی اٹھارکھی تھیں جبکہ  صدر بارک ابامہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ امریکہکی معیشت کسی نئی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ آپ اس تصویرکو امریکہ کی کس ذہنیکیفیت کا عکاس کہیں گے، یہ توآپ جانیں، ہم توصرف اتنا جانتے ہیں کہ  کسی بھیملک و قوم کواندرکی آگ جتنی آسانی سے جلاسکتی ہے ، باہرکی آگ نہیں جلاسکتی۔ابان ملکوں اور قوموں کواندرکی آگ جلارہی ہے اس لیے یہاں کسی بیرونی طاقت کوزحمتاٹھانے کی کچھ ضرورت ہی نہیں،انکل سام پریشان نہ ہوں ،جوکچھ ان کو کرناتھا کرچکے،اب یہ بیچارے خود ہی لڑمرکر ٹھنڈے ہوجائیں گے، اب یہ کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیںہیں۔  امریکہ و برطانیہ کے پٹھو حکمراں نوری المالکی کوبھی کروڑوںڈالر کی امداد پہنچا رہے ہیں اور نام نہاد مجاہدین کوبھی آکسیجن پہنچا رہے ہیں۔انکے اوران کے آقاؤں کے دونوں ہاتھ میں لڈو ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے حالات وواقعات پر گہری نگاہ رکھنے والا ایک عالمی مبصرعراقی  باغیوں کی پیش قدمی کے تعلق سےکہہ رہاتھاکہ یہبہت ہی خطرناک لوگ ہیں، ان کے پاس بے پناہ دولت بھی ہے اوربھاری اسلحے بھی ہیںلیکن امریکہ کہہ رہاتھا کہ عراق ان سے خود نبٹے ، عراقی افواج کی مدد کے لیے وہتین چارسو ماہرین کا ایک دستہ بغداد بھیجنے کی بات کررہاتھاجو ان کی رہنمائی کرےگا۔اس کی تقریباً یہی کیفیت مصر میں بھی ہے۔مصرخانہ جنگی کا شکار ہے، اس کی فوجاورعدالتیں اپنے ہی شہریوں کو ہردن سیکڑوں کی تعداد میں پھانسی پر کھینچ دینے کافیصلہ سنارہی ہیں لیکن انسانی حقوق ، امن عالم اور جمہوریت کے خودساختہ ٹھیکیدارتماشائیبنے نظرآتے ہیں اور ان کے حلیف ممالک جمہوریت کے قاتلوں پر دولت کے انبار لٹارہےہیں۔
 عراق کی خانہ جنگی کوکچھ لوگ  خالص سیاسی تصادم کہہ رہے ہیں ، کچھ مسلکی جنگ  جبکہ کچھ دوسرے مبصرین اس کو نسل اور علاقائیتکی کشمکش بتارہے ہیں لیکن بغور دیکھیں تو یہ سیاسی جنگ بھی ہے، مسلکی تصادم اورجہاد بھی ہے اور نسل و علاقائیت کی جنگ بھی اور یہی اس کا خطرناک  ترین پہلو ہے۔یہ ۲۰۱۳ء کے اواخر کی بات ہےجب  عراق میں وہ جنگجوتنظیمیں بھی جوہتھیار رکھ چکی تھیں اپنی  تمامتر طا قتیں مجتمع کر کے تازہ قوت کےساتھ میدان میں کود پڑیں اور صوبہ انبارمیں بڑے پیمانےپرتشددپھوٹ پڑااور حکومت کی رہی سہی رٹ بھی یہاں ختم ہوگئی۔جن تنظیموں کے مسلح جنگجوابمسلسل بغداد کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ایک کے بعدایک شہروں اور قصبوں پر قبضہ کر رہےہیں ان میں  انصار السنہ، انقلاب۱۹۲۰بریگیڈ،حماس عراق اورمجاہدین عراق بھی شامل ہیں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے گروپ بھیجنہوں نے اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ لیونٹ(آئی ایس آئی ایل) کے نام سے ایک وسیعتر اتحادقائم کیا ہواہے۔ان کے علاوہ بعثسٹ جنگجو بھی ہیں جنھوں نے نہ توکبھیہتھیاررکھانہ کبھی حملے بندکئے ۔سمجھا جاتا تھاکہ صدام حسین کے نائب عزت ابراہیمفوت ہوچکے ہیں لیکن اب یہ خبریں آرہی ہیں بعثسٹوں کی کمان انہوں نے ہی سنبھالرکھی،ان کا نقشبندی گروپ الگ ہے۔اس تصویر کو سامنے رکھیں توآپ سمجھ سکتے ہیں کہعراق کتنے خوفناک مستقبل اور کیسی خونریزخانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہےلیکن امریکہ ،برطانیہ اور ان کے حلیف ممالک کے لیے اب کسی فکروتشویش کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہاب یہاں کوئی صدام حسین نہیں ہے۔عراقیوں کو اب وہ دن خون کے آنسورلارہے ہیں جبصدام حسین اور بعث عرب سوشلسٹ پارٹی نےعراق کو ایک ڈور میں باندھ رکھی تھی  اور ان کی بندوقیں مسلک، مذہب ، علاقہ اورقبائلکے نام پر اتنی آسانی سے ایک دوسرے کے خلاف نہیں اٹھ سکتی تھیں۔اب تو یہ حال ہےکہ کون کس کوکس لیے قتل کرہاہے نہ مقتول کو معلوم ہے نہ قاتل پتہ۔
مصر کی کشیدہ صورتحال کو قابو میں کرنے اور عوام کو خانہ جنگی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے سرگرم ہونےوالے آرمی چیف عبدالفتاح السیسی کی صدارت کے تعلق سے یہ کہا جائے کہ مصر کی سیاسیجماعتوں نے اپنے اندر موجود اختلافات کو اتنا بڑھایا کہ خود سیاسی جماعتوں ہی کوایوان اقتدار سے باہر ہونا پڑاتوغلط نہ ہوگالیکن اس کھیل میں امریکہ اورخلیج میں اس کے سبسے بڑے حلیف سعودی شاہ کا کردار ہے یہ بھی کسی سے مخفی نہیں رہ گیاہے۔ صدارتی الیکشن میںعبدالفتاح السیسی کے مقابل صرف ایک امیدوار تھا حمدین صباحی، جن کو عوام میں کافیمقبولیت حاصل تھی لیکن انتخابی نتائج کے مطابق السیسی کے مقابلے میں ووٹروں نےانھیں یکسر نظر انداز کردیا۔
صدارتی انتخاب کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق25,578,233 ووٹروں نے نئے صدر کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اورملک بھر میں مجموعی طور پر ٹرن آؤٹ  47.5 فی صد رہا۔جن میں  96.91 فی صد ووٹ  السیسی نے حاصل کرکےکرسی ٔ صدارت پرقبضہ کرلیا۔مصرمیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے حسنی مبارک کے دور میں بھی یہی ہوتاتھا اوراس سے پہلےانورسادات اور جمال ناصر کے زمانے میں بھی یہی ہوتا آیاتھا۔ جس طرح جمہوریت کیبحالی کے نعرے کے ساتھ  عراق پرفوج کشیکرنے والے امریکہ و برطانیہ کو مصرمیں جمہوریت کی پامالی بالکل ہی نظر نہیںآتی  بلکہ السیسی امریکہ کی
خودساختہ جمہوریت کا انتہائی باوثوق محافظ ہےاسی طرح اب عراق میں بھی اسے  کوئی سنگین خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔لیکن  ان واقعات کے بالمقابل میرے ذہن کےپردے  پر افغانستان کی یہ تصویرچپک کررہ گئی ہے۔
یہ افغانستان کے صوبہ خوست کا ایک دورافتادہ گاؤں ہے، ہوا میں گردش کرتے ہیلی کاپٹر نیچےاترے، ایک امریکی فوجی بووی رابرٹ برگڈال ڈبل کیبن میں بیٹھا ہواہے۔وہ پانچ برس تکافغان طالبان کی قید میں رہا، آج اس کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے ہیں جنھیں وہبار بار ہاتھوں سے صاف کرتا ہے، آج وہ رہا ہونے جارہا ہے لیکن زیادہ اہم بات یہہے کہ اس کے بدلے میں طالبان نے گوانتانامو بے سے اپنے پانچ چوٹی کے رہنما رہاکرالئےہیں۔ پورے علاقے کو  طالبان کمانڈوز نےگھیرا ہوا ہے جن کی تعدادتقریباً ۱۸؍ہے۔ہیلیکاپٹر اترا، طالبان کی طرف سے دو افراد امریکی فوجی کو لئے آگے بڑھے، دوسری جانبسے دو امریکی آگے بڑھے۔ امریکیوں کے سراپے سے گھبراہٹ پوری طرح عیاں ہے، اسی عالممیں دونوں گروہ نے ایک دوسرے سےہاتھ ملائے۔ ایک امریکی اس قدر خوفزدہ ہے کہ بساپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر طالبان کمانڈو کے ہاتھ کو ہلکا سا چھوتاہے ، پھر وہ دونوںاپنے ساتھی کو لے کر ہاتھ ہلاتے ہوئے واپس مڑ جاتے ہیں۔کیا امریکہ کے یہ کانپتےہاتھ افغانستان کو عراق سے بھی بدتر حالات اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل کرراہ فرارنہیںاختیارکر رہے ہیں؟یہ تصویریں کیا کہتی ہیں بہت غورسے سننے کی ضرورت ہے۔

امریکی قیدی کے تبادلے کےلیے محض محدود وقت کے لیے خوست کے محدود علاقے میں جنگ بندی ہوئی تاکہ امریکی ہیلیکاپٹر میں آ کر ایک قبائلی سردار کے مکان سے اپنے ساتھی کو لے جائیں۔امریکی حکامکا دعویٰ ہے کہ یہ واحد امریکی فوجی تھا جو طالبان کی قید میں تھاجبکہ طالبان کادعوی ہے کہ ابھی اور بھی امریکی ان کی قید میں ہیں۔گوانتانامو بے سے رہا کیے جانےوالے قیدیوں میں محمد فضل، خیراللہ خیرخواہ، عبدالحق واثق، ملا نوراللہ نوری، اورمحمد نبی قمری شامل ہیں۔ معاہدے کے مطابق یہ طالبان رہنما ایک سال تک قطر میں  مقیم رہیں گے۔جسکا اس ڈیل میں کلیدی کردار ہے۔اعالماسلام میں  امریکہ کےحلیفوں کا یہدہراکردار بھی آپ سے بہت کچھ کہہ رہا ہے۔جس وقت رابرٹ گیڈال کے بدلے میں چوٹی کےپانچ طالبان رہنما رہاکئے جارہے تھے، امریکی ذرائع ابلاغ نے اس سوال کا خوب جوابتلاش کیاکہ کیا اسی دن کے لئے انھوں نے افغانستان پر قبضہ کیاتھا؟نائن الیون سےپہلے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے معروف مغربی صحافی اور دانشور رابرٹ فسکسے ایک انٹرویو میں کہاتھا ’’امریکہ کا جس دن حرمین کے بیٹوں سے پالا پڑے گا ، وہویت نام بھول جائے گا‘‘۔جبکہ انہی دنوں طالبان سربراہ ملا محمد عمر نے وائس آفامریکہ سے انٹرویو میں کہاتھا’’اس جنگ کا اختتام امریکہ کی رسوائی پہ ہوگا، امریکہافغانستان کی خاک چاٹ کر نکلے گا۔‘‘ فرانس کےسابق صدر  چارلس ڈیگال نے کبھی کہاتھا:’’آپ کو یقین ہوناچاہئے کہ امریکی وہ تمام حماقتیں کریں گے جو آپ سوچ سکتے ہیںلیکن ان میں سے بعض ایسی ہوں گی جن کا آپ تصوربھی نہیں کرسکتے۔‘ لیکن اصل صوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ نے کیاکیا حماقتیں کی ہیں، اس کے حصے میں کیا کیا رسوائیاں آرہی ہیں اوروہ کہاں کہا ںدھول چاٹ رہا ہے ، اصل سوال تو یہ ہے کہ اس نے ان ملکوں کوکہاں سے کہاں پہنچادیااور اس کا انجام کیا ہوگا؟عراق میں جہاں دودھ کی ندیاں بہتی تھیں آج خون کے دھارےبہہ رہے ہیں مگرجن کو ہوش نہیں آنا تھا، اب بھی نہیں آیا۔
بشکریہ روزنامہ انقلاب
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب پٹنہ کے ریزیڈنٹ اڈیٹر ہیں )


0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔