حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

اتوار، 6 جولائی، 2014

خلافت اسلامیہ کے زوال کا مرثیہ



تحریر:- احمد جاوید----
آج عالم اسلام میں کہیں انقلاب کےنعرے ہیں تو کہیں خلافت اسلامیہ کے قیام کی دہاڑیں جن پرسوائے ان کے جو الملہمۃ الکبری ٰ کے منتظر ہیں  ہرکس و ناکس حیران و پریشان ہےحتی کہ خودان کےمددگاروں کے دل بھی کانپ رہے ہیں۔دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے جیسے ہی اپنی خلافت  کا اعلان کیا، سعودی عرب نے عراق کے لیےکروڑوں کی امداد  کا اعلان کردیا۔کل تک خبریں آرہی تھیں کہ یہی سعودی عرب شیعہ حکومت کے خلاف سنی باغیوں کی مدد کرہاہے۔آج ہی خبرآئی ہے کہ برطانیہ شام میں باغیوں کی فوج تیارکرنے کے ایک منصوبے پر کام کررہاتھا ۔دوسال پہلے اس وقت کے وزیردفاع ڈیوڈرچرڈکی تجویز کے مطابق ان کو ترکی، اردن اوردوسرے پڑوسی ملکوں کے تربیتی مراکزمیں تربیت دینی تھی۔یہ کوئی اور نہیں ، ان ہی تنظیموں کے جنگجو تھے جنھوں نے  اپریل 2013 میں داعش بنائی۔
بغداد تاریخ میں کئی بار تاراج ہواہے۔آخری بار امریکہ اور اس کے حلیفوں نے اسے تاراج کیا۔پہلی بارمنگولوں کے ہاتھوںتباہ ہواتھالیکن پھر جلد ہی اپنی راکھ سے اٹھ کھڑا ہواتھاکیونکہ  دجلہ و فرات میں تیرتی لاشوں اور شہر کی گلیوںمیں بہتے خون کے دھاروں نے اہل عراق کو جلد ہی اپنے گریبانوں میں جھانکنے پرآمادہ کردیا تھا، بہت سے اہل اللہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے جن کی آنکھوں کے نوراوردلوں کے سوزنے اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ کی راہیں ہموار کی تھیں  جس کا دبدبہ بیسویں صدی کے اوائل تک قائم تھااور جس کے زوال کا مرثیہ ہم آج تک پڑھ رہے ہیں۔اور دل سے پوچھیے تو  خلافت اسلامیہ کے قیام  کا یہ اعلان بھی اسی زوال کا مرثیہ ہے۔خلافت ہمیشہ سے امت میں مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے۔اس کی شرطیں اور بنیادیں کیا ہیں اس وقت بھی بحث کا موضوع تھیں جب ہم ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے زوال کے زمانے تحریک خلافت چلارہے تھے اور اس کی راہوں میں اپنے آقاؤں کے ساتھ جزیرۃ العرب کے یہی امراوسلاطین  آگئے تھے، جن کو صدام کی سوشلسٹ ہویااخوان کی اسلامسٹ ہر منتخب حکومت سے خوف آیاکرتا ہے مگر حسنی مبارک اور السیسی کاجبرواستبداد خوب راس آتاہے۔اس سے قطع نظر کہ بغدادی کی خلافت کا انجام کیاہوگااور قادم یا بغداد کا نعرہ لگاتے ہوئے بڑھنے والی تنظیمیں کس منزل پر جاکر دملیتی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ہاتھوں بغداد کی تاراجی کے وقت بہت سے لوگوںکویہ بھروسہ تھاکہ یہ الف لیلوی شہرایک بار پھر اپنی راکھ سے اٹھ کھڑاہوگالیکن عہدوسطیکے چنگیز وہلاکو اور آج کے چنگیزوں اور ہلاکوؤں میں یہی فرق ہے کہ وہ صرف قتل کرنا جانتے تھے ، تباہی اور تاراجی پھیلانا ان کا پیشہ تھالیکن وہ نہ توشطرنج کی بساط پرمہرے سجانا جانتے تھےنہ اپنےدشمنوں کی رگوں میں آپسی نفرت و عداوت اورانتقام کا زہرگھولنے کا فن ان کو آتا تھا۔آیا ہوتا توبیسویں صدی کی دہلیزپربرطانیہ کو کرنل لارنس  اور اس کے چیلوں کی ضرورت نہیں پیش آتی جس نے جنگ کے دوران پہلاکام یہ کیا کہ حجازریلوے کی پٹریاں اکھاڑیں تاکہ  یہ خطہ کبھی ایک قوم نہ بن جائے،ان قوموں اور قبائل کی دوریاں گھٹ نہ جائیں۔
آج جزیرۃ العرب ہی نہیں ساراعالم اسلام تضادات کاشکارہے، انتقام درانتقام کی آگ میں جل رہاہے، نہ مقتول کو معلومکہ اسے کیوں قتل کیاگیانہ قاتل کو پتہ کہ اس نے کیوں قتل کیا۔دورکہاں جائیے،برصغیر میں ہی دیکھ لیجیے۔ایک پاکستانی دانشور کےبقول مملکت خدادمیں یہ دورآپسی تضادات کی ایک ایسی کڑی ہے جسےمورخ لکھنے پر آئے گا تو اس کے سامنے تضادات کاانبار لگا ہو گا۔ سچ کی لاش چوراہے میں لٹکی ہوئی ہے، اور تعصب کا کوڑا پورےمعاشرے پر برس رہا ہے۔اس بلا نےآج اس ملک کو ایسی دلدل میں لا کر پھینکا ہے کہ جسکا کوئی حل نہ آپریشن میں نظر آتا ہے اور نہ مذاکرات میں۔ دنیا میں کسی ایسی جنگ کا کوئی منطقی نتیجہ نکل بھی  نہیں سکتا جسنے نظریات کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔مسلکی منافرت اور نظریاتی تشد د وہ بارودی سرنگیں ہیں جو صدیوں بعد بھی  تباہی مچاتی ہیں۔
عراق میں  میڈیا اور دانشور مالکی حکومت کی ان کارروائیوںکو دہشت گردی اور القاعدہ کے خلاف جنگ قرار دے کر فلوجہ سے تکریت اور موصل تک آبادیوں کو تہہ تیغ کرنے کو قیام امن کی کوشش گردانتے رہے۔  کسی نے ان شہروں سے دربدر ہونے والے مہاجرین اورمرنے والے عام شہریوں کی خبر تک نہ لی ۔ کہا کہ جب قوم حالتِ جنگ میں ہو تو ایسی باتیں قوم کو تقسیم کرتی ہیں۔قوم کو تو تقسیم ہونا ہی تھا لیکن عراق کی اس حکمت عملی نے پوری امت کو تقسیم کر دیا۔ امن قائم کرنے کی اس کوشش نے ایک ایسے خوفناک گروہ کو جنم دیا جس سے آج سب خوفزدہ ہیں۔  ایران اور سعودی عرب دونوں خائف ہیں۔ایسا گروہجس کی آنکھوں میں انصاف اور امن نہیں صرف اور صرف انتقام ہے۔وہ صفویوں کے قبضے سےبغدادکو چھڑانے کی تحریک چلارہے ہیں ۔داعش نے ساری دنیا کے مسلمانوں سے جہاد کےلیےہجرت کی اپیل کی ہے تو دوسری جانب دنیاکے مختلف حصوں میں مبینہ دہشت گردوں سےبغدادکو بچانے کے لیے مجاہدیں کی بھرتیاں ہورہی ہیں لیکن اب بھی کوئی سچ نہیں بولرہاہے۔ اب بھی کوئی نہیں کہتا کہ ان تمام ریاستوں کو نظریاتی اور مسلکی تعصب سےبھرے لوگوں نے اس جنگ میں الجھایاہے۔ان ملکوں اور معاشروں کی  تباہی کےامریکہ اور برطانیہ سے زیادہ بڑے ذمہدارمسلکوں او رنظریوں کے زہر میں بجھے عناصر ہیں۔
داعش کےخلیفہ ابو بکرالبغدادی کا دعوی ہے کہ وہ اب تمام مسلم حکمرانوں کے خلیفہ ہیں اور خلافت کا دائرہعرب ممالک، ایران ، پاکستان ، افغانستان سے لے کر یورپ تک وسیع ہوگا۔تنظیم نے پچلےہی سال اسلامی خلافت کاایک نقشہ بھی جاری کردیا تھاجس کی حدودمیں وہ۵؍ سال کےدوران توسیع کرے گی ۔اس  نے ترکی اور شامسے متصل کئی شہروں پر اپنی حاکمیت قائم کرلی ہے، ابتدائی دنوں میں خلیجی ممالک  اوران ملکوں کے شیوخ  نے آئی آیس آئی ایسکو مالیاتی امداد فراہم کی ۔ کویت کی حکومت شا م کے صدر بشارالاسد کے خلاف اس تنظیم کی مزاحمت پر بہت خوش تھی اور تنظیم کو بڑے پیمانے پر فنڈز فراہم کیے  ۔ پھرآئی ایس آئی ایس (داعش )نے شام میں اپنےزیر کنٹرول علاقے سے قیمتی نوادرات فروخت کرکے خاطر خواہ دولت حاصل کی ۔برطانیہ کےایک ماہرمشرق وسطی  پروفیسرنیوسن کا کہناہے کہ موصل پر قبضے سے پہلے آئی ایس آئی ایس کے اثاثہ جات 900ملین ڈالر تھے جوبڑھ کر 2بلین ڈالر تک پہنچ گئے ۔ دنیا میں افغان طالبان رہنما ملا عمرکی خلافت پہلےہی موجود ہے جس کو القاعدہ کی حمایت حاصل ہے ، اب ایک اور خلیفہ آگئے ہیں ،بیچارے مسلمان کس کی اطاعت کریں؟ رابرٹ فسک  کااس صورتحال کو تاریخی تناظرمیں دیکھنا غلطنہیں ہے ۔یہ شمالی اور مشرقی شام اور جنوبی عراق پر سنیوں کے کنٹرول کی لڑائی ہے ،جس سےپہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے کے ساتھ برطانیہ اور فرانس کیسازش سے نافذ ہونے والا نقشہ  بدل جائے گا،یوں عراق ،شام،لبنان ، فلسطین کی حدود تبدیل ہوجائیں گی ۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ گزشتہصدی کی آخری تین دہائیوں میں امریکا نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں مذہبیاور فرقہ وارانہ جنون کو سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کے خاتمے کے لیے بطورہتھیار استعمال کرکے مسلمانوں کے لیے مبہوت کن مسائل پیدا کیےہیں۔دو سال قبل عربممالک میں برسر اقتدار حکومتوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو امریکا نے شام میں صدربشارالاسد اور لیبیا میں صدر قذافی کے خلاف پھریہی کیا۔سعودی عرب ، کویت اور خلیجیممالک نے انتہا پسندتنظیموں کے لیے خزانوں کے منہ  کھول دیے ۔اب تقسیم کےخطرے  سے دوچار عراق کی مالکی حکومت کو درپیش خطرات کا حل پھر فرقہ وارانہبنیادوں پر تلاش کیا جارہا ہے ۔ سعودی عرب کے اخبار عرب نیوز نے اپنے ایک اداریےمیں لکھا ہے کہ المالکی حکومت کردوں اورسنی اقلیت کو اقتدار میں شامل کرنے پر تیارنہیں تھی جس کا انتہا پسندوں نے فائدہ اٹھایا  ۔اس لیے ضروری ہے کہ نوری المالکی حکومت کو ختمکیا جائے اور نئی حکومت میں کردوں اورسنی اقلیت کو شامل کیا جائے۔
بلاشبہ امریکہ کی مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی سےمسلمان ممالک ایک نئے عذاب میں مبتلا ہیں۔ مگر اس کا منطقی حل کیا ہے؟ امریکہ،سعودی عرب  اوردسرے خلیجی ممالک  یاتوفور ی طور پرشام میں باغیوں کی مدد کرنابندکریں یاپھرمشرق وسطی کے نئے نقشے پر اپنارول تلاش کریں۔رابرٹ فسک ۱۹۱۸ء میں نافذکیے گئے نقشے کے خاتمے کی پیشگوئی کررہے ہیں ، اگر یہ تقسیم فرقہ وارانہ بنیادوںپرہوئی تو  تباہی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئےگا، مسئلے کا حل یہ  ہے کہ مسلمانوں کےذہنوں کو تبدیل کیا جائے ، ان کو انتقام کے جذبات اور مسلکی ،مذہبی ، علاقائی اورقبائلی عصبیتوں سے باہرنکالاجائے مگر یہ کام کون کرے ۔گرکفرزکعبہ برخیزدکجاماندمسلمانی؟۔
بشکریہ روزنامہ انقلاب
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب پٹنہ کے ریزیڈنٹ اڈیٹر ہیں )

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔