حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

بدھ، 9 جولائی، 2014

کیا فرانس کی قیادت آسٹریا سے سبق حاصل کرنے کو تیار ہے ؟

 خبر ہے کہ اسلامی برقعے سے خائف فرانس نے اپنے ملک میں حجاب کے استعمال  پر مکمل پابندی عاید کردی ہے ، جو اب پوری طرح نافذالعمل ہے گویا اب فرانس حجاب پرمکمل پابندی عاید کرنے والا پہلا یوروپی ملک ملک بن گیا ہے نکولس سرکوزی کی قیادت والی فرانس کی پارلیامنٹ نے اسے گزشتہ برس ہی پاس کر دیا تھا ۔ نئے قانون کے مطابق اگر کوئی خاتون کھلے عام برقعہ پہنے ملے گی تواسے دو سو ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جبکہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو برقع پہننے پر مجبور کرتا ہے تو اسے 43ہزار ڈالر بطور جرمانہ ادا کرنا پڑے گا ۔
گزشتہ دنوں جب یہ خبر آئی تو یکایک یمن کی نوبل انعام یافتہ سماجی کارکن توکل کرمان کا وہ جواب ذہن میں تازہ ہو گیا جو انہوں نے نوبل انعام پانے کے بعد میڈیا کے سوالات پر دیا تھا ، جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کی تعلیم و ترقی میںیہ حجاب آڑے نہیں آتا ؟ ان کاجواب تھا کہ انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان شروعاتی دور میں تقر یبا برہنہ رہتا تھا لیکن جیسے جیسے انسان کی عقل و فہم نے ترقی کی شعور بیدار ہوا انسان نے کپڑے پہننا شروع کیا میں آج جو کچھ ہوں اور جوپہن رہی ہوں یہ انسانی معاشرے کی اعلی ترقی کا مظہر ہے ، دوبارہ کپڑے اتارنے کا عمل ہمیں پھر قدیم دور میں لے جائے گا جہاں انسانی سماج برہنہ رہا کرتا تھ ااس طرح توکل کرمان نے ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے جو یہ غلط پروپیگنڈہ کرتے پھرتے ہیں کہ مسلم خواتین کی ترقی میں حجاب ایک بڑی روکاوٹ ہے ۔
یہی نہیں خود ایسے یوروپی ممالک آج بھی ہیں جو مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری آزادی فراہم کرتے ہیں ، آج سے دو برس قبل 2012 میں آسٹریاسے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ایک مثبت خبر آئی کہ یوروپی ملک آسٹریا میں اسلام کو سرکاری مذہب تسلیم کئے سو برس ہوچکے ہیں۔ اس مناسبت سے وہاں صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا جسے باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ 1912 میں آسٹریا کے شہنشاہ فرانز جوزف نے ایک قانونی دفعہ کے تحت مسلمانوں کو مذہبی طبقے کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اور اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے آسٹریا کے موجودہ صدر ہنز فشرنے، جو کہ مذہب اورعقیدے کے اعتبار سے رومن کیتھولک عیسائی ہیں، اس موقع پر ملک میں مسلمانوں کی موجودگی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امن وآشتی کا پیغام دیا ۔ صرف اتنا ہی نہیں اس یوروپی ملک کو مسلم شہریوں کی حیثیت تسلیم کرنے پر فخر ہے۔
اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ آسٹریاکی کل آبادی میں مسلمانوں کاحصہ چھ فیصد ہے۔ اس اعتبار سے وہاں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ انہیں اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے اور تمام تر سرکاری فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے
 برخلاف یوروپی ممالک کی ایک طویل فہرست ان ممالک پر مشتمل ہے جنہیں اسکارف اور دیگر اسلامی شعائر سے حد درجہ خطرہ ہے۔ ان میں بلجیم ، فرانس اور ڈنمارک سمیت دیگر یوروپی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کو مسلمانوں کی موجودگی بے انتہا کھلتی ہے خصوصاً مسلمانوں کا باعمل طبقہ ان کی نگاہ میں کانٹے کی مانند چبھتا رہتا ہے جس کا اظہار آئے دن مختلف شکلوں میں ہوتاہے۔ یوروپی ممالک میں مسلم خواتین پر
 اسکارف کے استعمال پر پابندی اسلام دشمنی کی بنا پر ہی ہے۔ آسٹریا کا یہ عمل ان یوروپی ممالک کے لئے یقینا قابل تقلید ہے جنھوں نے
 اسلام اور مسلمانوں کو امن عالم کے لئے خطرہ قرار دے کر نت نئے مخالف پروپگنڈے کو اپنا پسندیدہ مشغلہ بنا لیا ہے۔ کیااہل مغرب آسٹریا سے سبق حاصل کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ملک تمام تر مخالف پروپگنڈوں کے باوجود اپنے دیرینہ موقف پر آج بھی قائم و دائم ہے اور سو برس قبل لئے گئے فیصلے پر اسے فخر ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ آسٹریا کی قیادت اب تک اسلام مخالف پروپگنڈے کے دام فریب میں نہیں آسکی؟ کیا فرانس کی قیادت آسٹریا سے سبق حاصل کرنے کو تیار ہے۔

اردو ٹائمز امریکہ 

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔