حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

بدھ، 10 اکتوبر، 2012

کیا ملک کو ا یک نئے سیاسی متباد ل کی ضرورت ہے؟

وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے خطبے کے وہ الفاظ ابھی تازہ ہوں گے جو انہوں نے پندرہ اگست2012کولال قلعے کی فصیل سے باشندگان ملک یعنی اہل وطن کو خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع سے آزادی کے قائدین اور آئین کے معماروں کا وہ خواب جو انہوں نے آزاد ہندوستان کے لئے دیکھا تھا، وزیر اعظم کے خطبے کی روشنی میں اس کا تجزےہ کیاجائے۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ پندرہ اگست کو اہل وطن کے نام وزیر اعظم کا خطاب ایک طرح سے آزادی سے اب تک کارپورٹ کارڈ اور سرکار کی سالانہ کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنے، کچھ نئے وعدے نبھانے کے اعلان کا اہم ذریعہ ہوتاہے۔ آزادی کے متوالوں اور آئین کے معماروں کا وہ خواب جو انہوں نے آزادی سے قبل دیکھا تھا،آخر کیا تھا؟
 ان کی دِلی تمنا تھی کہ ہندوستان میں جمہوریت تا دیر قائم رہے۔ اِس کا دستور صحیح بنیادوں پر ہو، اور موثر طریقے سے اپنا کام کرے۔ ہمارے پارلیمانی ادارے بہتر ڈھنگ سے چلتے رہیں۔ فلاحی منصوبے مرتب ہوں اور ان کو ہرشہری کی ضرورتوں کے پیش نظر ترتیب دیاجائے۔ اس کا نفاذ شفافیت کے ساتھ ہو، ملک میں بدعنوانی اور بدانتظامیوں سے پاک بیوروکریسی کا قیام ہو۔ عدالتیں بلاتاخیر منصفانہ فیصلے کریں۔ ہر شخص کی آئینی وجمہوری آزادیاں بحال رہیں، بنیادی حقوق کی ادائیگی میں دھوکہ دہی اور فریب کا شائبہ تک نہ ہو۔ بازار میں اشیائے ضرورےہ بہ آسانی دستیاب ہوں اور ان کی قیمتیں بے قابو نہ ہوں، ملک میں فرقہ وارانہ ہمہ آہنگی کی فضا قائم ودائم رہے۔ اور ملک کے ہر شہری کو پرامن طریقے سے ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔ قانون کا احترام باقی رہے اور قانون شکنی پر سزا ہو۔ معاشرے میں انسانی بھائی چارے ومساوات کی فضا عام ہو۔ قابلیت، اخلاق وکردار کی بنیاد پر عزت واحترام ہو۔
 یہی وہ بنیادی اصول ہیں جن کا خواب آزادی کے قائدین نے دیکھاتھا۔ انہی خطوط پر ملک کا آئین وجودمیں آیاتھا۔ آیئے حالات کا آزادانہ تجزیہ کر یں کہ آزادی کے65برس کے اس سفر میں اس سمت میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا واقعی متذکرہ بالا خطوط پرہماری جمہوریت گامزن ہے؟ اس کا تسلی بخش جواب ملنا مشکل ہے کیونکہ ترقی کی عجلت میں ہم نے بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال کر نقالی کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ ہمیں جی ڈی پی کے عدد اعشارےہ نے عوام مخالف فیصلے کرنے کا عادی بنادیا ہے۔ معاشی اصلاحات کے بہانے ہر وہ کام کرنے کا جواز فراہم کیاجارہاہے جو ملک کی 80 فیصد آبادی کے مفادات کے خلاف ہو۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد سے وجود میںآنے والی سرکاروں نے ملک کو بین الاقوامی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے پارلیمانی ادارے دھینگامشتی کے اڈے بن کر رہ گئے ہیں۔ ایوان میں مارپیٹ اور ہنگامہ آرائی روز مرہ کا مشغلہ بن گیا ہے۔ فلاحی منصوبوں کے نفاذ میں بدعنوانی نے اپنی جگہ لے لی ہے۔ ملک میں یکے بعد دیگرے گھپلے وگھوٹالوں کے بڑے معاملے ظاہر ہورہے ہیں۔ ملک کی دولت کا ہزاروں کروڑوں گھوٹالوں کی نذر ہوگیا ہے۔ اور اس کی بھرپائی غریب عوام پر مہنگائی کا ٹیکس لگا کر کی جارہی ہے۔ عدالتوں کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ عدالتی نظام کی پیچیدگی کا ےہ عالم ہے کہ تین کروڑ سے زائد مقدمات کاانبار ہے۔ ملک میں آئے دن ایسے
قوانین پاس کرنے کی کوشش ہوتی رہتی ہے جس سے لوگوں کی آئینی وجمہوری آزادیوں کو کنٹرول کیاجاسکے ۔یکساں سول کوڈ کے قیام کی کوشش اس کی ایک کڑی ہے۔


اشیائے ضرورےہ کی عدم دستیابی کا ےہ عالم ہے کہ آئے دن ذخیرہ اندوزی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے قیمتیں اچانک بے تحاشا بڑھ جاتی ہیں۔ لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک 2008سے مسلسل قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب تو مہنگائی کو معیشت کی مضبوطی کے لئے ضروری قرار دیاجانے لگا ہے۔ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی صورت حال ےہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک چالیس ہزار سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔ قانون شکنی اور سزا سے بے خوفی کی وجہ سے جرائم میں روز افزوں اضافہ درج کیاجارہا ہے۔ بداخلاقی اور بدکرداری کو فروغ دینے والے ایسے قوانین پاس کرنے کی بات ہورہی ہے جس سے ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کو قانونی جواز فراہم ہوسکے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس تعلق سے گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے باقاعدہ وزارت صحت و قانون کو ہدایت بھی دی تھی کہ اس کا جواز تلاش کیا جائے۔ ملک میں ٹاڈا، پوٹا، مکوکا، یواے پی اے جیسے سیاہ قوانین بنانے کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس کے ذریعے بے قصور نوجوانوں کو دہشت گردی یا دوسرے سنگین الزامات لگا کر جیلوں میں ڈال دیاجاتا ہے۔ این سی ٹی سی مرکز کا قیام ابھی ہونا ہے، موقع ملتے ہی مرکزی سرکار FDIکی طرز پر اس کا قیام ضرورکرے گی۔ ےہ چند نمونے ہم سب کے سامنے ہیں۔ اس لئے ےہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ ہندوستان وہ ہندوستان ہرگز نہیں ہے جس کا خواب مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت نہرو اور گاندھی جی نے دیکھا تھا اور ایک عام ہندوستانی کی آنکھوں میں جس کی تصویر ہوتی ہے ایسے ہندوستان کی تعمیر کیسے اور کس طرح ہوگی؟ اس کے لئے جہاں ایک بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے وہیں عام آدمی کے احساسات معلوم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور ےہ کام موجودہ سیاسی قوتوں سے تو ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے بڑی سیاسی تبدیلی درکار ہے نیز ایک نئے سیاسی متبادل کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے عام آدمی ہی کو پہل کرنی ہوگی ۔ کیوں کہ زمانہ شاہد ہے کی خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا، اور جمہوریت میں حق رائے دہی وہ عظیم طاقت ہے جس کے مثبت اور بروقت استعمال سے بڑی سے بڑی تبدیلی بہ آسانی ہو سکتی ہے 

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔