گیسٹ کالم
گلزار صحراءی
”مجھے ’بگ باس‘ کا کانسپٹ بہت پسند ہے۔ ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں۔
ہرآدمی کے ساتھ ایک مائیک ہے۔ اگر ایسا ہی سسٹم تمام دفتروں میں ہو تو پھر کوئی رشوت
لے ہی نہیں سکے گا۔“ یہ خیالات ہیں اپنے ایک کارٹون کے سبب گزشتہ دنوں موضوع بحث بنے
رہنے والے کارٹونسٹ اسیم ترویدی کے، جن کااظہار موصوف نے ٹی وی چینل کلرس کے ریلٹی
شو ”بگ ہاس سیزن-۶“ میں داخل ہوتے وقت کیا تھا۔ ویسے ان خیالات کو ایک عام ہندوستانی
کا احساس بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ملک میں پھیلی اور مسلسل بڑھتی ہوئی بدعنوانی
کا سب سے زیادہ اثر مختلف صورتوں میں عام آدمی کی زندگی ہی پر پڑتا ہے۔ دوسری طرف وہ
یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ بدعنوانی کااستیصال کرنے کے لئے جانے والی کوششیں، چاہے وہ سیاسی
پارٹیوں کی نام نہاد کوششیں ہوں یا پھر اس ضمن میں کی گئیں مخلصانہ کوششیں- ناکام ثابت
ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میں مذکورہ بالا خواہش کسی کے دل میں بھی پیدا ہوسکتی ہے مگر یہ
خواہش کتنی قابل عمل ہے، اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے آءیےبگ باس کےکا نسپٹ پر ایک
نظر ڈالتے ہیں۔
ایک مخصوص ”آزمائشی گھر“ میں کچھ لوگوں کو عارضی طور پر رکھا
جاتا ہے۔ اس گھر میں ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے ساتھ ایک مائیک بھی ہے
۔ اس انتظام کے سبب ہرآدمی کا ہر قول وعمل ریکارڈ ہورہاہے اور اس کے تمام افعال واعمال
کاجائزہ ایک خفیہ آنکھ یا خفیہ شخصیت (بگ باس) لے رہی ہے۔ اس خفیہ شخصیت کی جانب سے
اس آزمائشی گھر والوں کے لئے وقتاً فوقتاً کچھ احکام وہدایات بھی جاری ہوتی رہتی ہیں
جن کی پابندی ہر شخص کے لےء لازم ہے اور ان کی خلاف ورزی پر (ہلکی پھلکی ہی سہی) کچھ
نہ کچھ سزا بھی دی جاتی ہے اور بہتر کار کردگی پر انعام بھی۔ اس گھر سے لوگ ایک ایک
کرکے رخصت ہوتے ہیں اور انتقال مکانی کے بعد ایک ہستی سے ان کا سامنا ہوتا ہے جو انہیں
ان کی ان خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں بتاتا ہے جن کامظاہرہ انہوں نے اس آزمائشی
گھر میں کیا تھا۔ اگر کسی کو اپنی کچھ باتیں یاد نہیں رہتیں اور وہ ان الزامات کو جھٹلانے
کی کوشش کرتا ہے تو فوراً اس کے اعمال کا ریکارڈ اسے دکھا دیا جاتا ہے جس کے بعد کسی
الزام کی تکذیب کرنا اس کے لئے ممکن نہیںرہتا۔
اس پروگرام کو دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہونا کوئی حیران کن امر
نہیں کہ اگر حقیقی زندگی میں بھی کوئی ایسا سٹم قائم ہوجائے جس سے انسان کے لئے اپنے
اقوال وافعال چھپانا ناممکن ہوجائے تو معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔
خیال برانہیں ہے بلکہ بعض معاملات میں اس پر عمل ہوبھی رہا ہے۔ بعض دفاتر میں سی سی
ٹی وی کیمروں کے ذریعے کارکنوں پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے
والوں کی گرفت کے لئے بعض اہم مقامات پر بھی اسی طرح کانظم کیاگیا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ
مالز میں چوری پکڑنے کے لئے بھی حفاظتی انتظامات کےے جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ تدابیر کارگر
بھی ثابت ہوتی ہیں لیکن اصل اور بنیادی سوال تو یہ ہے کہ اس طرح کے انتظامات کہاں کہاں
اورا ٓخر کس طرح کےے جاسکے ہیں؟ دفاتر میں کام چوری کے رجحان اور رشوت کے لین دین پر
بھلے ہی روک لگ جائے مگر دفاتر کے باہر اور کیمرے کی زد سے پرے طے پانے والے معاملات
کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان
کے دل ودماغ میں یہ احساس جاگزیں ہوجائے کہ وہ ہمہ وقت اور ہر جگہ غیر مرئی کیمروں
کی زد پر ہے اور اس کا ہر قول وعمل ہی نہیں، اس کی نیت وارادہ تک ریکارڈ ہورہاہے۔ اور
یہ تصور صرف اسلامی تصور حیات ہی دیتا ہے۔ اس تصور کی روسے انسان کی یہ دنیوی زندگی
کوئی گیم شو نہیں کہ خراب کارکردگی کی صورت میں محض ”آزمائشی گھر“ سے نکال دیے جانے
پر ہی اکتفا ہوجائے بلکہ یہ اس قادر مطلق کا بنایا ہوا ”دارالامتحان“ ہے۔ جہاں سے نکلنے
کے بعد انسان کو نہ صرف اس کے اعمال کا ریکارڈ دکھایا جائے گا، بلکہ اسی ریکاڈ کی بنا
پر اسے لازمی طور پر جزاءیا سزا بھی ملے گی، جو اس ”آزمائشی گھر“ کی طرح عارضی نہیں
بلکہ دائمی ہوگی۔ مواخذ ے کا یہی تصور انسان کو برائی سے باز رکھ سکتا ہے۔ کیا کسی
ریلٹی شو کے ذریعے اس تصور کو پیش کیاجاسکتا ہے؟
( مضمون نگار
"سہ روزہ دعوت دہلی "کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں)
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔