حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 1 نومبر، 2012

آسام کی تازہ صورت حال پر خصوصی انٹر ویو



باہم اعتماد کی بحالی ہی مسئلے کا مستقل حل ہے: شفیع مدنی


 آسام کی تازہ صورتحال جاننے کے لیے اشرف علی بستوی نے جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جناب محمد شفیع مد نی سے ،جو تین ماہ سے مستقل آسام میں رہ کر راحت اور باز آباد کاری کے کاموں میں مصروف ہیں، گذشتہ دنوں ان کی دہلی آمد پر یہ خاص بات چیت کی ہے۔ 
س: آسام کی تازہ صورت حال کیاہے؟  
ج:آسام کی صورت حال جو ڈھائی ماہ قبل تھی اس میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں آیا ہے، البتہ ےہ ضرور ہوا ہے کہ شروع کے دنوں میں آئے دن تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے تھے لیکن گزشتہ ایک ماہ سے تشدد کی کوئی بڑی واردات نہیں ہوئی ہے لیکن حالات میں بہتری نہیں آئی ہے۔ بے گھر ہونے والے افراد میں سے کچھ ہی لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکے ہیں، جن کی واپسی ہوسکی ہے ےہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خوف و دہشت کی وجہ سے تحفظ کے پیش نظر اپنے گھروں کو چھوڑ دیا تھا۔ لیکن جن لوگوں کے مکانات کو نذر آتش کردیاگیا، ان کے گھر بار تباہ وبرباد کردئے گئے ہیںان کے سامنے سردست ےہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ لوگ وہاں جاکر کہاں رہیں ، کیا کریں اور کون انہیں ان کے مقامات تک پہنچائے گا، ان کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کےے گئے ہیں اور پھر ان کی روزی روٹی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔

س:حکومت آسام اور بوڈو کی جانب سے مسئلے کے حل کی اب تک کیا کوششیں ہوئی ہیں؟
ج:ےہاں سب سے بڑا مسئلہ بنگلہ دیشی مہاجرین کاپیدا کیاگیا ہے اور اس سلسلے میں بوڈو کی وضح کی گئی پالیسی پر ہی ریاستی حکومت بھی عمل پیرا ہے۔ BTCنے حکم جاری کردیا ہے کہ1971 کی بنیاد پر ہی لوگوں کو لیا جائے اور اس کے بعد آنے والوں کو بنگلہ دیشی قرار دے دیاجائے۔ اب تک 70ہزار خاندانوں میں سے صرف 12ہزار خاندانوں کی تصدیق کا کام مکمل ہوسکاہے۔ واپسی کے لئے تصدیق میں جوشرائط طے کی گئی ہیں اس کی وجہ سے دشواریاں پیدا ہورہی ہیں۔ اور اب بھی ڈھائی لاکھ افراد کیمپوں میں رہنے پر مجبور رہیں۔
س:کیا میڈیا کی بے اعتنائی کی وجہ سے لوگوں کی توجہ میں کمی واقع ہوئی ہے، نیز سیاسی رہنما وں کے دوروں کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں؟
ج:میڈیا کی بے اعتنائی کی وجہ سے باز آبادکاری اور ریلیف کا کام بالکل متاثر نہیںہوا ہے ، اب بھی ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والی تنظیموں کے وفود آسام پہنچ رہے ہیں، فنڈ کی فراہمی میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن میڈیامیں اس ایشو پر کوئی گفتگو نہیں ہورہی ہے۔ گویا ےہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آسام میں سب کچھ معمول پر آگیا ہے۔ سیاسی رہنما وں کے دوروں سے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ وی آئی پی دوروں کے دوران سرکاری مشینری فعال ضرور دکھائی دی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیںہوا۔ وزیر اعظم، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے دورے کے بعد بھی معاملہ جوں کا توں ہی رہا۔
س:مقامی تنظیموں کے ساتھ جماعت کے رابطے کی نوعیت کیا ہے، اس سلسلے میں سیاسی وغیر سیاسی تنظیموں اور انتظامےہ کے ذمہ داران سے ملاقات کی نوعیت کیا رہی؟
ج:مسئلے کے حل کے لئے آسام کی مقامی سیاسی جماعتوں غیر سیاسی تنظیموں اور حکومت کے اعلیٰ عہدے داران سے متعدد میٹنگیں ہوئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی اور ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین سے دو سے زائد بار ہم ملے ہیں، اس کے علاوہ ریاست کے ایڈیشنل چیف سکریٹری، پولیس کے اعلیٰ افسران اور این آئی اے کے ڈی آئی جی سمیت دیگر افسران سے مل کر موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ نیزآسام کی اہم سیاسی جماعت آسام گن پریشد، دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی اور میڈیا کے افراد سے بات چیت کی گئی ہے۔ بوڈو کی اسٹوڈنٹ یونین ABSUکے ذمہ داران سے ملاقات اور آل بوڈو لینڈ مائنارٹیز اسٹوڈنٹ یونین ABMSUکے افراد سے بھی ملاقات کی گئی ہے قانونی امداد کے لئے کام کرنے والی تنظیم سینٹر فارسوشل جسٹس کے ذمہ داران سے مل کر اس محاذ پر کام کرنے کے لئے ایک منصوبہ ¿ عمل تیار کیاجارہاہے۔ مشکل ےہ ہے کہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جن کے ریکارڈ محفوظ نہیں رہ گئے ہیں، اس سلسلے میں ہماری کوشش ےہ ہے کہ سرکاری ریکارڈ میں موجود اعداد وشمار اور تفصیلات کی بنیاد پر لوگوں کی نشاندہی کی جائے، ہر کیمپ میں حکومت کے کارندے آتے ہیں وہ اپنے ساتھ کچھ ریکارڈ بھی لاتے ہیں لہٰذا فی الحال موجود ریکارڈ کی بنیاد پر زیادہ تر افراد کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش ہورہی ہے، حکومت آسام نے ایک سروے فارم تیار کیا ہے جس میں درج کچھ چیزوں سے ہم متفق نہیںہیں لہٰذا اس سلسلے میں ایک تحریری شکایت نامہ حکومت کو ارسال کردیاگیا ہے۔ سروے فارم میں کچھ کالم کم ہیں جس کی وجہ سے مکمل تفصیلات نہیں آسکتیں اگر اس سلسلے میں دی گئی شکایت پر توجہ نہیں دی جاتی ہے تو ہم قانونی چارہ جوئی کاراستہ اختیار کریں گے۔
س:جماعت کی جانب سے جاری ریلیف اور باز آباد کاری کے کاموں کی صورت حال کیا ہے، کون سے منصوبے زیر ترتیب ہیں۔
ج:باز آبادکاری کے کسی منصوبے کے اعلان سے قبل ضروری ہے کہ وہاں کی صورتحال اور ضرورت کا بھرپور جائزہ لیا جائے، جماعت کی جانب سے باز آباد کاری کے کچھ مستقل منصوبے زیر ترتیب ہیں وقت آنے پر باقاعدہ اعلان کردیاجائے گا۔ جماعت نے بھی مکانات کی تعمیر کا کام شروع کیا ہے لیکن ہم ےہ کام BTADکے ان علاقوں میں کررہے ہیں جہاں سے لوگوں کو نکالا گیا ہے ہم لوگوں کو ان کےاصل مقام تک لے جانے کا منصوبہ تیار کررہے ہیں۔ حالانکہ اس منصوبے کو روبہ عمل لانے میں کافی مشکلات پیش آرہی ہےں ہمیں اب تک کئی بار دھمکیاں مل چکی ہیں۔ ہم نے ان لوگوں سے بھی بات کی ہے۔ اب ان کے روےے میں تبدیلی آئی ہے اور وہ بات چیت کی میز پر آنے پر رضا مندر ہوگئے ہیں۔ عنقریب ان سے تبادلہ ¿ خیال ہوگا۔ اب تک جن لوگوں کو ان کے اصل مقامات پر لے جایاگیا ہے سردست ان کے سامنے فصلوں کی پیداوار کا مسئلہ ہے، مقامی لوگوں کی طرف سے بائیکاٹ کے پیش نظر انہیں خدشہ ہے کہ ان کی فصلوں کی فروخت کا کیاہوگا ان کی تمام الجھنوں کودُور کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ ان کو ہر طرح کا تعاون جاری ہے۔ ہم نے بھی وہاں زمینیں خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن ہمارا مقصد ان علاقوں میں تعلیمی اداروں کا قیام ہے ،خواتین کے لئے آئی ٹی آئی سینٹر کھولنا اور طلبہ کے لئے ہاسٹل کی تعمیر شامل ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ےہ ہے کہ ےہاں کے لوگوں کے رہن سہن کا طور طریقہ جداگانہ ہے ایسی صورت میں ان کے لئے کوئی کالونی بنانا کار آمد ثابت نہیں ہوگا، ےہاں کے لوگ علیحدہ گھر بنا کر رہنے کے عادی ہیں۔ اس سے قبل وہاں ۴۵مکانات پر مشتمل کالونی تعمیر کی گئی تھی لیکن وہاں اب صرف سترہ خاندان رہتے ہیں۔ اس لئے باز آباد کاری کامنصوبہ بناتے وقت وہاں کے مسائل اور ضروریات کا لحاظ رکھنا ہوگا۔
س:آپ نے اپنی گفتگو میں لیگل سیل کے قیام کی بات کی ہے، اس کی موجودہ شکل کیا ہے اور ےہ کس طرح کام کررہا ہے؟

ج:اس وقت وہاں ایسی دو این جی اوز ہیں جو قانونی امداد کے لئے کام کررہی ہیں ان کے ساتھ ہم براہ راست وابستہ ہوگئے ہیں۔
 اور اس سمت کافی پیش رفت ہوئی ہے تقریباً پانچ ہزار شکایات درج کروائی گئی ہیں اور اس کے علاوہ سات ہزار شکایات بغیر نام کے درج کرائی گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں گوہاٹی میں وکلاءکی میٹنگ بلائی گئی تھی جس میں ہائی کورٹ کے37 وکلاءنے شرکت کی۔ ریاستی اقلیتی کمیشنکے چیئرمین عبدالمجیب مجمدار صاحب جو بڑے وکیل بھی ہیں شریک ہوئے۔ 6اکتوبر کو وکلاءنے ایک پریس میٹ بھی کی تھی جسے میڈیا میں کافی اہمیت دی گئی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اسے بھرپور کور کیا۔

س: ریلیف اور باز آباد کاری میں سرگرم دیگر تنظیموں کے ساتھ رابطے اور اشتراک کی کیا صورت حال ہے۔

ج:جمعیة علماءہند آسام اور اجمل فا ونڈیشن سمیت دیگر تنظیمیں جو راحت رسانی اور بازآبادکاری میں سرگرم عمل ہیں ہم ان سے برابر رابطے میں ہیں، ایشوز پر باہم تبادلہ خیال باز آباد کاری کے کاموں کو تقسیم کرکے کرنے کے متعلق باہم مشورے ہوتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا عمل جاری ہے۔ سبھی لوگ اپنی استطاعت کے مطابق انفرادی واجتماعی طور پر کام کررہے ہیں لہٰذا سبھی کی کوششیں قابل قدر ہیں۔
س:آپ نے گجرات میں بھی فسادات کے دوران اور بعد میں ریلیف کا کام کیا ہے اور اب آسام میں ےہی کام کررہے ہیں دونوں مقامات پر کیا فرق ہے ؟
ج:سمجھنے کی بات ےہ ہے کہ آسام اور گجرات کی صورت حال بالکل مختلف ہے، گجرات میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا تھا۔ لیکن آسام میں جانی نقصان بہت کم ہوا ہے۔ گجرات میں شرپسند عناصر کی نیت بالکل الگ تھی اور ریاستی حکومت فسادات میں براہ راست ملوث تھی جس کے ثبوت عدلےہ کے حالےہ کچھ فیصلوں سے ملتے ہیں۔ گجرات میں ہونے والی اس زیادتی کے خلاف غیر مسلم افراد بھی فوری طور پر سامنے آگئے تھے جس کی وجہ سے خوف ودہشت کا ماحول بہت جلد ختم ہونے لگا تھا، لوگوں کو ان کے مقامات پر دوبارہ بسانا آسان ہوا جب کہ آسام میں حالات بالکل جداگانہ ہیں۔ ےہاں بنگلہ دیشی مہاجرین کے نام پر لوگوں کو بے دخل کرنے کا کام ہوا ہے اس کی وجہ سے باز آباد کاری کے کاموں میں بڑی رکاوٹ آرہی ہے۔ تصدیق کا عمل بڑا پیچیدہ بنادیاگیا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کو خوف وہراس میں مبتلا کرکے انہیں غلامانہ ذہنیت کااسیر
 بنادینے کا منصوبہ تھا لیکن آسام میں مسلمانوں کو قتل کرڈالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، ےہاں BTADوالے علاقے سے مسلمانوں کو بے دخل دینا چاہتے ہیں گویا اس طرح بوڈو اس علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نیز ےہ لوگ BTC کونسل کو ریاست کا درجہ دلانا چاہتے ہیں اور ےہ اس وقت تک ممکن نہیںہے جب تک اس علاقے میں51فیصد آبادی بوڈو کی نہ ہوجائے۔ ظاہر ہے ےہ کام آسان نہیںہے اس لئے بوڈو ےہ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے سے غیر بوڈو آبادیوں کو بے دخل کردیا جائے تو BTCکو ریاست کا درجہ بہ آسانی حاصل ہوجائے گا۔ ےہی وجہ ہے کہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ سنتھالی آدی باسیوں اور دیگر نسلی گروپوں کے ساتھ ماضی میں بوڈو کے تنازعات رہے ہیں۔ حکومت آسام کی لاپروائی کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار تو قرار دیا جاسکتاہے لیکن آسام کے فسادات کو اسٹیٹ اسپانسر نہیں کہا جاسکتا۔ حالات معمول پر آنے میں وقت درکار ہے اس لئے ہم اس بات پر خاص توجہ دے رہے ہیں کہ بوڈو مسلمان اور دیگر کمیونٹی کے درمیان رابطے کو بحال کیا جائے تاکہ یہ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں اور باہم اعتماد کی فضا بحال ہو۔ یہی اس مسئلے کا مستقل حل ہے۔
 E mail:ashrafbastavi@gmail.com

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔