آج ترک تمبا کو کا عالمی دن ہے یہ دن ہر برس 31مئی کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ۔ آج کے دن یہ تجدیدعہد کیا جائے گا کہ تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے عوامی بیداری کے ساتھ ساتھ سخت قوانین بنا کر تمباکو نوشی کو روکنے کی مزید کوشش کی جائے گی ۔ یہ عمل ہر برس پابندی سے دہرایا جاتا ہے اور عالمی صحت تنظیم کچھ راہنما خطوط جاری کرکے آئندہ برس تک کے لیے اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتی ہے ۔ ا س بار عالمی صحت تنظیم ڈبلیو ایچ او نے اس دن کا موضوع "تمباکو پرٹیکس کا ا ضافہ" رکھا ہے ، گزشتہ برس کا موضوع "تمباکو کے اشتہارات، افزودگی اور اس کے اسپا نسرشپ پر پابندی عاید کرنا تھا ۔اسی تناظر میں گزشتہ دنوں نومبر 2013کے وسط میں عالمی صحت تنظیم نے تمباکو پر کنٹرول کیسے کے عنوان پر ایک سہ روزہ کا نفرنس انعقاد کیا جس میں یہ طے پایا کہ اگر تمباکو نوشی پر قابو پانے کے لیے تمباکو سے تیار اشیاءپر ٹیکس کا اضافہ کر دیا جا ئے تو اسطرح قیمتوں میں کم ازکم دس فیصد کا اضافہ ہو جائے گا ، کانفرنس کے شرکا ءنے مانا کہ اس اضافے سے نو جوان نسل کی تمباکونوشی کی طرف رغبت میں بڑی حد تک کمی آئے گی نیز اس قدم سے امیر ملکوں میں تمباکو کے استعمال میں 4 فیصد کی کمی ہو جائے گی اور کمزور معیشت والے ملکوں میں 8 فیصد تک کمی ہو جائے گی۔ عالمی ادارے نے یہ طے کیا ہے کہ اس برس دنیا کے ملکوں کو اس جانب متوجہ کیا جائے گا۔
ڈبلیو ایچ او کی 2012 کی رپورٹ کے مطابق تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ہر سال دینا بھر میں تقریبا ساٹھ لاکھ لوگوں کی موت ہوتی ہے. عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا کے ممالک نے اس بارے میں قانون نہیں بنایا تو 2030 تک ہر سال 80 لاکھ سے تجاوز کرنے کا اندیشہ ہے۔عالمی ترک تمباکو دن کا مقصد آنے والی نسلوں کو تمباکو سے صحت کو ہونے والے نقصان سے بچانا ہے. عالمی ادارہ صحت کے مطابق 83 ممالک نے تمباکو کے اشتہارات، افزودگی اور اس کے اسپانسر شپ پر پوری طرح سے پابندی لگا دی ہے ۔
ہندوستان نے 2003 میں قانون بنا کر تمباکو کی مصنوعات کے استعمال اور تقسیم کو کنٹرول کرنے کا کم شروع کیا تھا لیکن اس کا اثر کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ آج بھی ہندوستان میں ہر سال تمباکو سے تقریبا 15 لاکھ لوگ اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔
تمباکو نوشی کے نقصانات کا ادراک دنیا کو سب سے پہلے 1930 میں ہوا، اس کے بعد سے مستقل اس مسئلے پر مستقل غورو فکر کا عمل جاری ہے لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ 83 سالہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر تمباکو نوشی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں دن پر دن غیرمعمولی اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی ترک تمباکو کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں سمپوزیم ، سمینار اور ریلیاں نکال کر پمفلٰٹ تقسیم کرکے اس امید کے ساتھ تسلی کرلی جائے گی کہ رواں سال میں تمباکو نوشی میں خاطر خواہ کمی ہو جائے گی، جبکہ یہ خام خیالی ہے۔ حالت میں مثبت تبدیلی کی امید اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک بیداری مہم کے ساتھ ساتھ تمباکو سے تیار ہونے والی اشیاکی پیداوار اور اس کی فروخت پر پوری طورپر روک نہ لگائی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آئے دن شراب نوشی سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوتے ہیں اور معاشرے میں مجرمانہ کارروائیوں میں شراب کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس کے مضمرات کو حکومت بھی تسلیم کرتی ہے، لیکن اس پر پابندی لگانے کے لئے حکومتیں تیار نظرنہیں آتیں۔ اس لیے عملی تدابیر اختیار کیے بغیر صورت حال میں کوئی مثبت تبدیلی کی خواہش بے کار ہے نیز مضبوط قوت ارادی کے بغیر تمباکو نوشی پر قابو پانا تقریباناممکن ہے۔
ہندوستان کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 5,56,400 افراد 2010 میں تمباکو نوشی کے سبب ہونے والے امراض سے موت کا شکار ہوئے ہیں جن میں36تا69 کی عمر کے افراد کی تعداد 71 فیصد تھی ، اب اس میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمی صحت تنظیم کی تشویش اور اس کی جانب سے کی جانے والی کوششوں میں کافی تضاد پایا جاتا پے ، اس نے جو فارمولہ پیش کیا ہے ایک دم ناقص ہے ٹیکس بڑھاکر قیمتوں میں اضافہ کرکے تمباکو کے استعمال پر روک تو کیا کوئی کمی واقع ہو نے والی نہیں ہے بلکہ اس میں او رشدت آئے گی نو جوان نسل کو قیمتیں بڑھا کر تمباکو نوشی کے دلدل سے کبھی نہیں نکالا جا سکتا، تجربات یہ بتاتے ہیں کہ مہنگائی سے کسی بھی چیز کی فروخت کو ہر گز روکا نہیں جا سکتا ، ایسا محسوس ہو تا ہے کہ عالمی صحت تنظیم نے یہ غیر حکیمانہ قرار داد تمباکو اشیاءکی تجارت کرنے والی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پاس کیا ہے ۔جب تک اس کی تجارت اور پیداوار پر مکمل پابندی عاید نہ کر دی جائے حالات میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے ،ساتھ ہی تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے عوام کو موثر ڈھنگ سے باخبر کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔