عام انتخابات
کے نتائج آنے سے قبل کی جانے والی پیش قیاسیوں پرمبنی وہ تمام سوالات اب قصہ پارینہ
بن چکے ہیں، جو ٹی وی مبا حثوں کے مرکزی موضوع ہوا کرتے تھے ۔ حیرت انگیز طور پرخلاف
توقع آنے والے نتائج نے ہندوستانی شہریوں کے ہاتھوں میں اب نئے تازہ سوالات کی ایک
طویل فہرست تھما دی ہے جن کا جواب ہر ذی شعور حلقہ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق تلاش کرنے
میں مشغول ہے۔ نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے شکست خوردہ سبھی سیاسی گروہ خود احتسابی
میں مصروف ہیں اور اب بدلے ہوئے حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی تر تیب دے رہے ہیں، یہی
وجہ ہے کہ وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے
اس کی پہل بہار سے کر دی ہے اور اپنے دیرینہ سیاسی حریف نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل
یو نائٹیڈ کو بہار اسمبلی میں بلا شرط حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ مسٹر یادو نے
اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سبھی سیکولر سیاسی قوتوں کو متحد
کرنے کے لیے کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور سبھی سیکولر سیاسی گروپوں کو متحد کرنے
کے لیے انہوں نے یہ پہل کی ہے۔
لیکن تجزیہ طلب امر یہ ہے کہ دیش
کا مسلمان اب بھی ایماندارانہ خود احتسابی سے گریز کرتے ہوئے پہلو تہی کا ایک نیا طریقہ
تلاش کر تا نظر آرہا ہے ، اورہر خاص وعام کے زبان پر بس صرف ایک فقرہ جاری ہے ، ووٹنگ
مشینوں میں گڑبڑی ! یہ کہہ کر مسلمان اپنی پیٹھ تھپ تھپا رہا ہے ، کہتا ہے کہ ہم نے
تواپنا کام کیا لیکن ای وی ایم نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ اپنی ہر ناکامی کو سازش کے
خانے میں ڈال کر اپنی ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر لینا ہماری پہچان بن گئی ہے
، معاملہ بین الاقوامی ہو تو سہیونی سازش اور اگرمعاملہ اندرون ملک کا ہو تو فسطائی
طاقتوں کی سازش ، کیا یہی ایک زندہ قوم کی پہچان ہے۔ معاملے کے صرف ایک پہلو پر پورا
زور یہ بتاتا ہے کہ ہم نے خود احتسابی سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ہمیں
ایسی طفل تسلیوں کی وادیوں سے نکل کر نتیجے خواہ جیسے بھی ہوں ان کو تسلیم کئے بغیر
اب کوئی چارہ نہیں ہے۔
بلاشبہ حالات کا تجزیہ کرتے وقت
الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں خرد برد کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تجزیہ کا ایک
زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا
ہوگا۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ جس سیاسی گروپ نے جیت درج کی ہے وہ علی الاعلان چانکیہ
کو اپنا آئیڈیل تسلیم کرتا ہے اور اسی کے سیاسی اصولوں کی روشنی میں اپنا ہدف حاصل
کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جس کا واحد فارمولہ ہے "اقتدار ہر قیمت پر "۔
ظاہر ہے ایسی صورت میں اس گروپ سے خیر کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔ سوال تو اس گروپ
سے ہی ہوگا جو فسطائی قوتوں کو شکست فاش دینے کے لیے کوشاں تھے۔
لہذا اب ہمیں
اس کو ایک واقعہ کے طورپر مان کر ہی آگے بڑھنا ہو گا ، کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ البتہ
اس کے ساتھ ساتھ ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت سے ضروررجوع کیا جانا چاہیے لیکن بے بنیاد
منفی ردعمل کے اظہار کی روش مناسب نہیں ہے ۔ اس وقت نہ تو کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی
کو درست ٹھرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اب ایسے جذبات کے اظہار کا موقع ہے۔ہاں اس بات
کا جائزہ ہ ضرور لیا جنا چاہیے کہ ہماری حکمت عملی کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں ۔ ہر
سیاسی گروہ جس کوشکست و ریخت سے دوچار ہو نا پڑا ہے ان کے یہاں تو یہ عمل شروع ہوچکا
ہے۔ خیال رہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اقتدار کی یہ تبدیلی غیرمعمولی واقعہ ہے
احتساب کا عمل طویل عرصے تک جاری رہے گا اور یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا
کہ تمام سیکولر کو ششیں رائیگاں ہو گئیں۔تمام سیکولر قوتوں کا ایک مقصد تو بی جے پی
کو ملک میں مضبوط سیاسی طاقت بننے سے روکناتھا اور دوسرااین ڈی اے کو اقتدار سے دور
رکھناتھا، لیکن یہ خواب اس بار چکناچور ہو گیا۔
اس بار ان تمام سیاسی عناصر اور
قوتوں کا دائرہ اثر سمٹ کر اتنا محدود ہوگیا ہے کہ بعض سیاسی قوتوں کا وجود خطرے میں
ہے ۔اس وقت تنہا بی جے پی پارلیا مینٹ میں عددی قوت کے لحاظ سے خود کفیل ہے ، یعنی
حلیف جماعتوں کا اب اس پر کوئی دباو نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں اس وقت مسلم اقلیتی طبقے
کے ذہن میں بے شمارخدشات پنپ رہے ہیں جنہیں بے بنیاد نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ
اتر پردیش میں بی جے پی کی سابقہ حکمرانی کے تجربات کافی تلخ رہے ہیں 1992 کی تکلیف
دہ یادیں اب بھی تازہ ہیں ۔ باوجود اسکے ہمیں باد مخالف سے گھبرا نے کی چنداں ضرورت
نہیں ہے۔
بلا شبہ غیر
متوقع حیرت انگیزانتخابی نتائج نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے کئی سوال کھڑے کر دیے
ہیں۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ ملک کے بدلے سیاسی تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں کا
رویہ کیا ہو ؟ اپنے موقف پر برقرار رہتے ہوئے آنے والی سرکارسے ربط وتعلق کی کیا صورت
اختیار کی جائے ؟ممکنہ خد شات کے ازالے کے لیے کیا صورت کیا ہو ؟ یہ وقت جذباتی بیانات
اوراشتعال انگیزتبصروں کا نہیں ہے بلکہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اب ایک لمحہ ضائع کیے
بغیر فوری طور پر بدلے حا لات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے اوراس کی بنیاد پر مسقبل
کا ٹھوس لائحہ عمل وضع کیا جائے۔ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں مثبت طرز عمل ہی ہمیں
مستقبل کی منصوبہ بندی میں معاون و مدد گار ہو گا۔
اردو ٹائمز امریکہ
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔