حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

پیر، 19 مئی، 2014

آسام تشدد کا پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا


 
عام انتخابات کی گہما گہمی کے درمیان کئی اہم توجہ طلب ایشوز میڈیا میں زیر بحث آئے لیکن ان پر توجہ مرکوز نہیں ہو سکی ، آسام کے حالیہ مسلم کش فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے معاصر انگریزی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا نے6 مئی کو اداریہ تحریر کیا ہے اور وہاں کے حالات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے اخبار لکھتاہے کہ بوڈو خطے میں آباد مسلم عوام کو تحفظ فراہم کرانے میں ناکام آسام سرکار کی یہ تجویز کہ وہاں بسنے والے مسلمانوں کو سلواجوڈم کی طرز پر مسلح کیاجائے، انتہائی تشویش ناک ہے کیوں کہ اس سے وہاں تشدد کی آگ نہ صرف مزید بھڑک اٹھے گی بلکہ پھیل بھی جائے گی، جس سے عوامی بھائی چارے اور ہم آہنگی کی فضا مزید خراب ہوجائے گی کیوں کہ پہلے سے ہی بھرپور طریقے سے مسلح بوڈو اور مسلمان دونوں باہم بری طرح الجھ پڑیںگے اور تشدد کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑے گا جس کو ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں رہ پائے گا۔ ماضی میں چھتیس گڑھ میں یہ تجربہ ناکام رہا ہے اور اس کے بدترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ سرکار کو ایسے کسی بھی قدم سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے خطے میں مزید جانی نقصانات کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
آسام کے تازہ تشدد کے لیے حکومت نے نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ تجویز پیش کی ہے۔ اخبار لکھتاہے کہ حالیہ تشدد کی اصل وجہ بی ٹی اے ڈی خطے میں مسلمانوں کی آبادی کاغلبہ ہے، جس کو لے کر بوڈو قبیلے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اس سے قبل 2012کے فسادات میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 105 افراد ہلاک اور چار لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور اس بار اب تک پچاس سے زائد افراد کو بے رحمی سے قتل کیا جاچکا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے اور اب تک2012 کے فساد متاثرین کی بازآبادکاری کا کام مکمل بھی نہیں ہوسکاتھا کہ ایک بار پھر وہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
 ایسا محسوس ہوتاہے کہ اپنی آئینی ذمہ داری سے پہلوتہی کرتے ہوئے ریاستی سرکار نے یہ تجویز پیش کی ہے۔ بظاہر تو یہ تجویز بڑی سادہ سی اور بے ضرر معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑی حد تک تشدد کو روک پانے میں مدد ملے گی لیکن اخبار کا یہ احساس بھی توجہ طلب ہے کہ چھتیس گڑھ میں سلواجوڈم کو مسلح کرنے کے نتائج بڑے بھیانک رہے ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چھتیس گڑھ اور آسام کے مسائل جداگانہ ہیں،
دونوں معاملوں کو ایک دوسرے سے جوڑا نہیں جاسکتا۔ آسام میں معاملہ ایک بڑی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کا ہے، جب کہ چھتیس گڑھ میں نکسلی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکار نے یہ قدم اٹھایا تھا۔2012میں جب پہلی بار بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے اس وقت بھی بعض حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیاگیاتھا کہ اگر ریاستی حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی، بوڈو خطے میں بوڈو قبائلیوں کو غیرمسلح نہیں کرسکتی جس کا اعتراف وزیراعلیٰ پہلے ہی کرچکے ہیں تو ایسی صورت میں وہاں بسنے والے دوسرے لوگوں کو تحفظ کیسے حاصل ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بوڈو ٹیری ٹوریل کونسل کو فوری طورپر برخاست کیاجائے اور اس خطے کی الگ حیثیت ختم کی جائے۔ کیوں کہ جب تک ایسا نہیں ہوگا، تشدد کاپائیدار حل نہیں نکل سکتا۔

اردو ٹائمز امریکہ 

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔