گذشتہ دنوں پارلیامنٹ میں کیے گئے ایک سوال
کے جواب میں مرکزی سرکار نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا ہے کہ سال2011کے اواخر تک ملک کی
جیلوں میں زیرسماعت دو لاکھ اکتالیس ہزار دو سو قیدیوں میں اکیاون ہزار دوسو چھ مسلمان
ہیں، یعنی تقریباً ہر چوتھا قیدی مسلمان ہے۔ اگرچہ جواب میں اس میں اس بات کی وضاحت
نہیں کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم قیدیوں کی تعداد کتنی ہے، البتہ
اعداد وشمار سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ ملک کی جیلوں میں مسلمانوں کا تناسب ان کی
آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ جب کہ سرکاری نوکریوں میںمسلمانوں کی نمائندگی صرف
ڈھائی فیصد رہ گئی ہے جو انگریزوں کے ہندوستان میں 35 فیصد ہوتی تھی ۔ متذکرہ بالا
اعدادو شمار کا تجزیہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ملک کی جیلوں میں بند ہر چوتھا قیدی
مسلمان ہے۔ ممکن ہے کہ سوال کرنے والے نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہو کہ ہندوستانی
جیلوں میں دہشت گردی کے الزام میں بند قیدیوں کی تعداد کیا ہے؟ لیکن جواب میں اس بات
کی وضاحت نہیں کی گئی۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے تعلق سے ایوان میں اٹھنے والی
یہ آوازیں توجہ طلب ہیں۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے
تعلق سے جو مہم جماعت اسلامی ہند ، جمعیت علماءہند سمیت ملک کی دیگر سرکردہ مسلم تنظیموںکی
جانب سے شروع کی گئی تھی اب اس کی بازگشت پارلیمنٹ میں سنائی دے رہی ہے۔ میڈیا بھی
اس جانب متوجہ ہواہے اور ملک کے بڑے سیکولر سیاسی گروپوں نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔
وزیراعظم اور صدر جمہوریہ ہند سے ملاقاتیں کی جارہی ہیں۔
بائیں بازو کی جماعتوں کی دلچسپی نے اس ایشو
کو اس سطح تک لانے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ اب ایسا ماحول پیدا ہورہاہے جس کی وجہ سے
ان گرفتاریوں پر ہر خاص وعام کے ذہن و دماغ میں سوال اٹھ رہاہے۔ اترپردیش میں حالیہ
دنوں نمیش کمیشن کی رپورٹ کے تعلق سے اب تک جو کچھ میڈیا میں آیاہے قابل توجہ ہے۔ یہ
مہم مزید منظم ڈھنگ سے چلانے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ وقت یوپی اے سرکار کے لےے بھی
کافی اہم ہے اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی لڑائی لڑنے والے افراد اور گروپوں کے لےے
بھی۔ مسلم ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ کانگریس کے منی شنکر ایئر لوک جن شکتی پارٹی کے
صدر رام ولاس پاسوان ، سیتارام یچوری، اے بی بردھن، پرکاش کرات سمیت دیگر سنجیدہ سیاست
دانوں کی شرکت کو بامعنی بنانے کی تدابیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام2014کے
عام انتخابات سے قبل کرنے کا ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ حالات کے تحت میڈیا
کے طرزعمل میںبھی وقتی طورپر ہی سہی تبدیلی ظاہر ہوئی ہے۔ اب پولیس کے دعووں پر سوال
اٹھائے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسی مسئلے پر ایک ٹی وی مباحثے میں اینکر نے اس بات کو
تسلیم کیاکہ جب کسی نوجوان کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو اس وقت پولیس کے بیانات کی
بنیاد پر ملزم کو فوری طورپر مجرم ثابت کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، یہ قطعی درست نہیں
ہے۔ مباحثے میں شریک کانگریس کے سینئر لیڈر منی شنکر ایئر نے کہاکہ حیرانی کی بات ہے
کہ دھماکہ ہونے کے بعد ٹی وی چینلوں میں بھی دھماکے ہوجاتے ہیں،
میڈیا کا یہ رویہ افسوس ناک ہے۔ یہ اور اس طرح کے تبصرے
انصاف پسند طبقے کی جانب سے آنے کا مطلب واضح ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کی کارکردگی پر
سوالات اٹھ رہے ہیں۔ انہیں جواب دہ بنانے اور قصوروار سیکورٹی اہل کاروں کو سزا دینے
کامطالبہ ہونے لگا ہے۔ لہٰذا جدوجہد کے اس سلسلے کادائرہ وسیع تر اور مربوط کرنے کی
ضرورت ہے۔
E-mail:ashrafbastavi@gmail.com
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔