نئی دہلی: گذشتہ دنوں بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے 23ویں سہ روزہ اجلاس میں ملک بھر سے آئے چار سو سے زائد مندوبین نے مولانا رابع حسنی ندوی کو بورڈ کی آئندہ میقات کے لیے ایک بار پھر صدر منتخب کر لیا ہے ۔ انہیں مسلسل چوتھی بار اتفاق رائے سے بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا ہے بورڈ کا یہ اجلاس بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے اجین شہر کے مضافات میں واقع اجین کی جامعہ عربیہ سراج العلوم میں 22 تا 24 مارچ منعقد ہوا۔ انتخاب کے بعد مندوبین کو خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ دستور ہند میں اقلیت و اکثریت اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا جو حق دیا گیا ہے، اس کے تحت مسلمانوں کو شریعت محمدی پر عمل کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔ جب شریعت محمدی میں مداخلت کی کوشش کی جانے لگے تو مسلمانوں پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ شریعت کی بقا اور تحفظ کے لیے جو بھی دستوری اور جمہوری طریقے ہیں انہیں اختیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن دینی احکام کو قربان نہیں کر سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ شریعت سے ناواقف لوگوں کو شریعت کے احکام کی خوبیوں سے واقف کرانا بہت مفید کام ہے۔
اجلاس میں بھارتی مسلمانوں کو درپیش مختلف مسائل حق تعلیم ،ڈائریکٹ ٹیکس بل سے مسلم اداروں کو ہونے والی دشواریوں ، ،وقف ترمیمی ایکٹ ، شادی کے لیے لازمی رجسٹریشن اور پارلیمنٹ میں انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل سمیت دیگرمعا ملے زیر بحث آے ۔ اجلاس میں چالیس رکنی مجلس عاملہ کا انتخاب بھی عمل میں آیا ، واضح رہے کہ مولانا سید رابع ندوی جو کہ بھارت کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم ندوہ کے ناظم ہیں کا انتخاب قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے انتقال 2002میں اتفاق رائے سے کیا گیا تھا بعد ازاں اگلی مدتوں کے لیے بھی وہ منتخب ہوتے رہے ۔ نائب صدور کے طور پر جن پانچ افراد کا انتخاب کیا گیا ہے ان کے اسماے گرامی یہ ہیں ،امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری ،شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق،مولا نا محمد سالم قاسمی ،مولانا کا کا سعید،مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی اور مولانا سید نظام الدین کو بورڈ کا جنرل سکریٹری بنایا گیا ہے اس کے علاوہ چار سیکریٹری بنائے گئے ہیں جن کے اسمائے گرامی مولانا عبدالرحیم قریشی ،مولانا ولی رحمانی ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اورعبدالستار شیخ ہیں ،اور پروفیسر ریاض عمر بورڈ کے خازن ہوں گے ۔
واضح رہے کہ بھارت میں مسلم پرسنل لا بورڈ 1986 میں اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب بھارت کی ریاست مدھیہ پردش کے بھوپال کی رہنے والی خاتون شاہ بانو کا مقدمہ موضوع بحث بنا تھا جس میں شرعی احکام کے مطابق طلاق کے بعد عدت تک نان و نفقہ دینے کے معاملے کواس کے فیصلے میں چیلنج کیا گیا تھا اور اس بات کے لیے زور دیا جارہا تھا طلاق شدہ عورت کو تا عمر یا دوسری شادی تک شوہر نان و نفقہ دے ۔
اس وقت راجیو گاندھی ملک کے وزیر اعظم تھے، اور بالاخر بورڈ کے موقف کو کامیابی ملی تھی اور بھارتی حکومت نے مسلم پرسنل لا قانون بنایا۔
خیال رہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام 28 دسمبر1972 کو ایسے وقت میں ہوا تھا جب حکومتی سطح سے متوازی قانون کے ذریعہ شرعی قوانین کو بے اثر کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور بھارتی پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کیا جاچکا تھا اور اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے اس کو یونیفارم سول کوڈ کی طرف پہلا قدم قرار دیا تھا، اسی تناظر میں 27,28 دسمبر1972کو ایک تاریخ ساز کنونشن کیا گیا بعد ازیں 7 اپریل 1973 کو حیدرآباد اجلاس میں تمام مکاتب فکر کی تائید کے ساتھ بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔ بورڈ کے پہلے صدر قاری محمد طیب صاحب ہوئے جن کی مدت صدارت 7 اپریل 1973سے تا حیات 17جولای 1983رہی، ان کے بعد مولانا سید ابوالحسن علی ندوی 28 دسمبر1983 کو بورڈ کے صدر بنائے گے جن کی مدت صدارت تا حیات 31دسمبر1999رہی،ان کے بعد 23اپریل 2000 سے تا حیات 4 اپریل 2002 تک قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صدررہے ۔ ان کی وفات کے بعد 23جون 2002 کو مولانا رابع حسنی ندوی کا انتخاب عمل میں آیا جو تا حال بورڈ کے صدر ہیں ، بورڈ کے قیام کے بعد پہلے جنرل سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی بنائے گے تھے جو 7 اپریل1973سے تا حیات 19مارچ 1991 تک اس عہدے پر برقرار رہے، ان کی وفات کے بعد مئی 1991سے تا حال مولانا سید نظام الدین بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں اس میقات کے لیے بھی منتخب ہوئے ہیں ۔
یہ مضمون اردو ٹاءمز امریکہ کے صفحات پر بھی دستیاب ہے
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔