یو اے پی اے ایکٹ کے تناظر میں
ابوبکر سباق سبحانی
ہندوستانی تاریخ میں سخت گیر قوانین کی شروعات ۱۸۵۷ کی حکومت مخالف سرگرمیوں کی سرزنش و سرکوبی کی غرض سے ہوئی تھی، جبکہ ملک میں پہلی
بار انگریز حکومت کے خلاف ہندوستانی عوام نے آواز بلند کی تھی، اورمسلح بغاوت کا
علم ہاتھ میں لیا تھا، اس تشویشناک صورت حال پر انگریز حکومت نے اپنے جبرواستبداد
کے ذریعے کنٹرول تو حاصل کرلیا ،تاہم مستقبل میں ہندوستانی شہری انگریزی استعمار
کے جبر واستبداد کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہ کرسکیں، اس کے لیے سخت گیر
قوانین بنائے گئے تاکہ وہ قانون کی سخت اور پیچیدہ دفعات میں الجھ کر رہ جائیں اور
مستقبل میں اس قسم کی بغاوت کی ہمت نہ کرسکیں، انہیں اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہیں
تھی کہ کہیں ان کے یہ قوانین کالے قوانین کے دائرے میں تو نہیں آتے، بہرحال یہ سخت
گیر قوانین استعماری حکومت نے یہاں کے باشندوں کی صدائے حریت کو دبانے کی غرض سے
اس وقت پاس کیے تھے جب پوری دنیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کی خاطر نہ تو کوئی
عالمی ادارہ قائم ہواتھا، نہ ہی بین الاقوامی قراردادوں، کنونشنس اور کمیشنس کی
ایک طویل فہرست موجود تھی۔
۱۹۴۷ ء میں ہمارا ملک آزاد ہوگیا، ملک کا نیا دستور
حکومت تشکیل دیا گیا، تاہم قوانین اور عدالتی نظام کو بھی استعمارکے چھوڑے ہوئے
پولیس نظام کے ساتھ قائم رکھا گیا۔ انڈین پینل کوڈ، کرمنل پروسیجر کوڈ، پولیس ایکٹ
۱۸۶۱،
ڈیفنس آف انڈیا رولس، پریونٹیو ڈیٹنشن ایکٹ جو ۱۸۵۷ ء
کے غدر کے بعد تشکیل دئیے گئے تھے، جوں کے توں نہ صرف برقرار رکھے گئے بلکہ ان
قوانین میں آزادی کے بعد بھی ایسے قوانین یا ان قوانین میں ایسی شقات شامل کی جاتی
رہیں، جن کی نوعیت انگریزی قوانین کے بالمقابل زیادہ جارح تھی اور وہ غیرانسانی
اقدار پر مبنی تھے، مثلا آرمڈ فورسیز اسپیشل پاورس ایکٹ(AFSPA)ِِِِِ ،ِ ُُُُُُُپریونٹیو ڈیٹنشن ایکٹ،غیرقانونی
سرگرمیاں مانع ایکٹ( یواے پی اے)، ایم آئی ایس اے، نیشنل سیکیورٹی ایکٹ (این ایس
اے)، ٹاڈا ۱۹۸۷، پوٹا ۲۰۰۲اور مکوکا وغیرہ وہ قوانین ہیں، جو ہمارے ملک کی عوامی حکومت نے اپنے
ملک کی عوام کے لیے تشکیل دئیے ہیں، جو پولیس و تفتیشی اداروں کے اختیارات میں لامحدودیت
اور شہری حقوق کی خلاف ورزی اور ان بنیادی حقوق کی محدودیت کے فلسفہ کے آئینہ دار
ہیں، جن کے خلاف شروع سے عوام نے آواز بلند کی، چنانچہ ان قوانین کے کبھی نام
تبدیل ہوجاتے ہیں، کبھی ان کی شقات کسی دوسرے قانون کی سرپرستی حاصل کرلیتی ہیں۔
غیرقانونی سرگرمیاں( مانع )ایکٹ( یواے پی اے)نے
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہوجانے کے بعد ۳۰
دسمبر ۱۹۶۷ کو صدرجمہوریہ کی دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کرلی، اس قانون
کو نیشنل انٹیگریشن کونسل کی سفارشات پر تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد ہندوستان کے
اتحاد و خود مختاری کے مفاد میں دستور کے ذریعہ حاصل شدہ ’’آزادی برائے اظہار خیال
و تقریر‘‘، ’’ پرامن و بغیر ہتھیار کے ایک جگہ اکٹھا ہونے کے حق ‘‘، نیز ’’تنظیم و
جماعت تشکیل دینے کے حق ‘‘میں پارلیمینٹ کو پابندیاں عائدکرنے کے اختیارات فراہم
کرنا تھا۔
اس قانون کے تحت کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی
حمایت، یا ملک کے کسی علاقہ یا حصہ کو جو حکومت کے ذریعے ہندوستان کا حصہ شمار کیا
گیا ہو، اس علاقہ پر کسی غیر ملکی دعوی کی حمایت کرنا، یہ حمایت انفرادی یا
اجتماعی ہو، کسی عمل سے ہو یاقول سے ، تحریری یا تقریری، اشارتاََ یا باقاعدہ
دیکھی و سمجھی جاسکتی ہو۔یا جس کے سوالات و بیانات ہندوستان کی علاقائی سالمیت و
خودمختاری کو متأثر کریں یا کرنے کا مقصد رکھتے ہوں، غرض اس قانون کا بنیادی مقصد
علیحدگی پسند تحریکات کا گلا گھونٹنا تھا، یا ملک کے دیگر حلقوں کی طرف سے ممکنہ
حمایت و تعاون کی روک تھام تھا، اس بنیاد پر کہ ملک کی سالمیت و اتحاد نیز
خودمختارانہ حیثیت کوخطرہ لاحق ہو یا کسی شخص کی ممکنہ حمایت اس شہری کو ملک مخالف
و ملک دشمن ثابت کرسکتی ہے، اگرچہ آپ کو اعتراض ملک کی سالمیت سے نہ ہوکر ملک کی
ان داخلہ و خارجہ پالیسیوں سے ہو جو آپ کے مطابق ملک کی سالمیت کے برخلاف ہوں۔
ملک و سماج دشمن عناصر و سرگرمیوں کا سامنا کرنے
یعنی دہشت گردی و انتہا پسندی پر قابوحاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۸۷ میں
ٹاڈا قانون بنایا گیا، ٹاڈا کے تحت کل ۷۷۵۰۰؍گرفتاریاں
ہوئیں، پنجاب میں ۱۵۳۱۴؍ افراد ، جموں و کشمیر میں ۱۵۲۲۵؍، آسام میں ۱۲۷۱۵؍ جب کہ گجرات میں ۱۸۶۸۶؍ افراد کے خلاف ٹاڈا قانون کے
تحت مقدمات چلے، جبکہ صرف اعشاریہ آٹھ فیصد کے خلاف جرم ثابت ہوسکا، چنانچہ انسانی
حقوق کی خلاف ورزیاں، غیر قانونی گرفتاریاں، ٹارچر، پولیس انکاؤنٹرجیسے تلخ حقائق
نے عوام کے اندر بے چینی پیدا کی، ٹاڈا قانون کی جائزہ کمیٹیوں نے حقائق کو تسلیم
کیا ، احتجاج اور مظاہروں کے سبب ۱۹۹۵ میں یہ قانون ختم کردیا گیا،
تاہم ٹاڈا کے تحت درج مقدمات کی سماعت آج بھی ٹاڈا کی دفعات کی روشنی میں خصوصی
ٹاڈا عدالتوں میں ہی چل رہی ہے۔
۲۰۰۱ ء میں پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، اسی دوران امریکہ
میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کے بعد پوری دنیا میں دہشت گرد ی مخالف مہم جنگل
کی آگ کی طرح پھیل گئی، اسی ماحول سے متاثر ہوکر ہمارے ملک کی پارلیمنٹ نے پوٹا
قانون ۲۰۰۲ ء میں پاس کیا ، پوٹا میں میسااور ٹاڈا کی جارح شقوں کو ترمیم کے
ساتھ شامل کیا گیا، اب حکومت کسی بھی تنظیم کو اگرچہ اس تنظیم کے خلاف کوئی پختہ و
معقول ثبوت موجود ہو ں یا نہ ہوں ، غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔ پوٹا کی سب سے بڑی
کمی تھی’’ ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری‘‘کی شق، قانون کے مطابق جرم کو ثابت
کرناالزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے، جب کہ پوٹا کے تحت ملزم کو عدالت میں یہ
ثابت کرنا ہوتا تھا کہ اس نے جرم نہیں کیا ہے۔ تاہم اپنی نامعقول شقات کی وجہ سے
بالآخر پوٹا بھی ختم کردیا گیا۔
۲۰۰۴ ء کی ترمیمات کے ذریعے دہشت گردانہ کاروائیوں
کو بھی ’’غیرقانونی سرگرمیاں (مانع) قانون(ترمیم شدہ)‘‘ کے تحت ایک جرم قرار دے
دیا گیا۔
ہمارے ملک کی پولیس و خفیہ ایجنسیوں کی ایک مخصوص
خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کی ذمہ داری ہمیشہ دوسروں کے سر منڈھ
دیتی ہیں، ملک میں ہونے والے حادثات کی ذمہ داری غیر ملکی عناصر کے سر نیز قوانین
کے نفاذ میں ناکامی کی ذمہ داری قوانین کی کمزوری کے سر، یعنی ہمارے ملک میں
قوانین کا نفاذ اسی صورت میں ہوگا جب قوانین سخت اور کالے ہوں گے، چنانچہ ۲۶؍نومبر
۲۰۰۸ ء
کے ممبئی سانحہ نے ایک بار پھر پورے ملک کو جھنجھوڑدیا، سخت قوانین کا شور پھر
اٹھا، میڈیا نے پورے ملک کو سر پر اٹھا لیا، حکومت نے عوامی بحث و مباحثوں میں وقت
کا ضیاع محسوس کرتے ہوئے لوک سبھا میں ’’غیرقانونی سرگرمیاں (مانع)ترمیم بل ‘‘پیش
کردیا، جو کسی بھی بحث و مباحثے کے بغیر فوراََ پاس ہوگیا، یہ ترمیمات دستورہند کی
بعض دفعات اور بین الاقوامی حقوق انسانی کی قراردادوں اورمعاہدوں کے برخلاف
تھیں،اس قانون کی چند شقات جو حقوق انسانی کی قراردادوں و فوجداری قوانین کے خلاف
ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں:
*اس قانون میں ایک بار پھر وہ تمام دفعات شامل کردی گئیں جن کے غلط
استعمال کی بنیاد پر ٹاڈا اور پوٹا کو ختم کیا گیا تھا،ایک بار پھر پولیس ایجنسیوں
کو غیر معمولی اختیارات فراہم کردئیے گئے۔
*مرکزی حکومت کو یہ لامحدود اختیارات دے دئیے گئے کہ وہ جب چاہے کسی
بھی تنظیم کو غیرقانونی و دہشت گرد قرار دے کر پابندی نافذ کردے،پابندی کی مدت
دوسال ہوگی، نیز مجرمانہ عمل کی تعریف و فہرست مزید وسیع کردی گئی۔
*غیر قانونی سرگرمیوں اور دہشت گردی کی تعریف وسیع اور غیر واضح کرکے
امکانات کو ایک اہم بنیاد قرار دے دیا گیا، یعنی اب حکومتی ادارے کسی بھی فرد واحد
یا گروہ کو شکوک و امکانات کی بنیاد پر گرفتار کرکے اس کے خلاف اس قانون کے تحت
مقدمات چلاسکتے ہیں۔
*حکومتی ادارے خواہ و ہ خفیہ ادارے ہوں یا پولیس ایجنسیاں اس قانون کے
تحت بغیر کسی عدالتی وارنٹ کے، محض شک کی بنیاد پر گرفتاری، تفتیش ، تلاشی
اوراملاک ضبط کرنے کاکام انجام دے سکتی ہیں۔
*سرکاری وکیل کی درخواست پر جج کو یہ اختیار ہے کہ وہ چارج شیٹ جمع
کرنے کی مدت کو بڑھا کر ۱۸۰؍ دن کردے، جبکہ دیگر قوانین میں یہ مدت ۹۰؍ دن
ہی ہوسکتی ہے۔
*عدالت اس قانون کے تحت گرفتار شدہ ملزم کو حق ضمانت سے محروم کرسکتی
ہے۔
*نظام انصاف کی روح یعنی یہ اصول کہ جرم ثابت ہونے تک وہ بے گناہ مانا
جائے گا، یہاں کارفرما نہیں ہے، جس کی بنیاد پر حق ضمانت یہاں قابل قبول نہیں ہے۔
اس قانون کی کمیوں پر بحث جاری تھی کہ ۲۹؍
دسمبر ۲۰۱۱ ء میں ایک بار پھر اس قانون میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش
کردیا گیا، اس بل کے بنیادی مقاصد غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا، نیز غیرقانونی و
دہشت گردی معاون مالیاتی وسائل پر قابو پاناہے،جو اس قانون کو مزید سخت کرنے کا
بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے، یہ بل راجیہ سبھا کے ساتھ ساتھ ۳۰؍
نومبر ۲۰۱۲ کو لوک سبھا سے پاس ہونے کے بعد صدر جمہوریہ کی تائید کے لئے جاچکا
ہے، لوک سبھا میں اس ترمیم کے خلاف آوازیں بھی بلند ہوئیں تاہم بغیر کسی ردوبدل کے
اسی دن یہ بل پاس ہوگیا، نئی ترمیمات کچھ یوں ہیں:
*اس بل کے ذریعے فرد (person)کی تعریف تبدیل کردی گئی، اب فرد سے مراد ایک فرد واحد، ایک متحدہ
ہندو فیملی، ایک کمپنی، فرم یا کوئی بھی افراد کی انجمن و جماعت وغیرہ بھی شامل
ہیں۔
*کسی بھی ملکیت و آمدنی کو دہشت گرد معاون قرار دینے و ضبط کرنے کے
لیے اس کے ممکنہ استعمال کا اندیشہ کافی ہے۔
*اس بل کے تحت کسی بھی ممنوعہ و غیرقانونی جماعت یا تنظیم کی مدت
پابندی دو سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔
*دہشت گردانہ عمل کی اصطلاح میں غیرقانونی مالیاتی سرگرمیوں کو شامل
کردیا گیا، اب وہ تمام عمل و سرگرمیاں جن کی وجہ سے ہندوستانی مالیاتی استحکام
متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر ہو ، مثلا اسمگلنگ، وغیرہ کو تیسری شق میں شامل کردیا
گیا ہے۔
*بم ، دھماکہ خیز اشیاء، زہریلے کیمیکل، نیوکلےئر مادوں وغیرہ کی دہشت
گردانہ کاروائیوں کی مدد ، سازش یا کاروائی کی غرض سے ڈیمانڈ کرنا۔
*کسی بھی بین الاقوامی یا سرکاری ادارے کو کسی مانگ کی خاطر قید کرنا،
زخم پہنچانا، دھمکی دینا، یا قتل کرنا وغیرہ بھی اس بل کے تحت قابل تعذیر ہوں گے۔
*اس بل کی شقات کے مطابق اگر کوئی کمپنی، سوسائٹی یا ٹرسٹ کسی بھی غیر
قانونی سرگرمی میں شامل پائی گئی، تو وہ تمام ہی افراد جو اس جرم کے مرتکب ہونے کے
وقت کسی بھی ذمہ داری پر فائز تھے، انہیں اس جرم میں شامل قرار دیا جائے گا، جس کی
سزا سات سال یا اس سے زائد کی قید نیز پانچ سے دس کروڑ روپے بطور جرمانہ ہوگی۔
*عدالت کو یہ اختیار ہوگاکہ وہ ملزم ( فرد، خاندان، ٹرسٹ، تنظیم یا
سوسائٹی وغیرہ) کی ملکیت بقدر مالیت جو اس جرم میں استعمال کی گئی ہو، یا تمام ،
یا ملکیت کا کوئی حصہ جیسا کہ عدالت مناسب سمجھے ، ضبط کرسکتی ہے، یہ مدت ضبطی
عدالتی کاروائی کی تکمیل تک بھی ہوسکتی ہے۔
یہ ان نکات میں سے چند نکات ہیں جو اس بل میں شامل
کئے گئے ہیں، یوں اب عنقریب صدرجمہوریہ کی تائید حاصل کرنے کے بعد مذکورہ
غیرقانونی سرگرمیاں (مانع) ترمیم قانون ہندوستانی تاریخ کا سب سے سخت قانون ہونے
کی حیثیت حاصل کرلے گا۔
اس قانون کی بہت سی خامیاں ہیں، یہ قانون آئی سی سی
پی آر(انٹر نیشنل کووینینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس) جس پر ہندوستان نے دستخط
کی ہے، اس سے پوری طرح متضاد ہے، جبکہ دستخط کے بعد حکومت مذکورہ قرارداد پر عمل
کرنے کی پابند ہے، اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے حقوق انسانی و بنیادی آزادی کے تحفظ
و ارتقاء پر مبنی اپنی خصوصی رپورٹ میں جو سفارشات کی تھیں،سپریم کورٹ کا ڈی کے
باسو بنام مغربی بنگال فیصلہ جو۱۹۹۷ میں دیا گیا، جو اس سلسلہ میں
ایک سنگ میل کی اہمیت رکھتا ہے، مزیدسیکیورٹی کونسل کے ذریعے ۲۶؍
مارچ ۲۰۰۴ میں پاس کیے گئے ریزولیوشن کی شقات کو مکمل نظرانداز کیا گیا ہے،
یوں یہ قانون حقوق انسانی و دستور کے ذریعے عطا کردہ شہری حقوق کی روح سے پوری طرح
متضاد ہے۔ اس قانون کے اہم نکات اور ممکنہ خدشات درج ذیل ہیں:
۱۔ مذکورہ قانون کی دفعہ ۳۹؍ کے
تحت اگر کوئی شخص یا ادارہ کسی ایسے شخص کی تقریر اپنے ادارے یا ادارے کے کسی
پروگرام میں رکھتا ہے، جو شخص کسی طرح کسی بھی علیحدگی پسند یا انتہاپسند تحریک کا
کارکن یا ہم خیال ہو تو اس دفعہ کے مطابق مذکورہ ادارے کے ذمہ داران کو دس سال تک
کی قید ہوسکتی ہے، یعنی ہندوستانی عوام کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے کہ اگر ملک کے
کسی حصے میں کچھ افراد حکومتی پالیسیوں سے متفق نہ ہوکر ، اپنے دستوری حق’’آزادی
اظہار خیال ‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے، ایک جمہوری ملک میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے
آواز بلند کریں تو یہاں کی عوام ان افراد کے مسائل سے واقفیت کی غرض سے کوئی
پروگرام یا مذاکرہ منعقد کرسکیں، یا ان میں شامل ہوسکیں۔جس کا غلط استعمال بڑے
پیمانے پرعوامی احتجاجات کے خلاف ہوسکتا ہے۔
۲۔ مالیاتی ذرائع کی
قانونی تجاویز، نیز اس میں ایک امکان کا اندیشہ جس کا تذکرہ ٹرسٹ ، سوسائٹی، تنظیم
اور اداروں کے تناظر میں کیا گیا ہے، اقلیتوں کے خلاف ایک بڑی سازش کا پیش خیمہ
محسوس ہوتا ہے۔
۳۔یو اے پی اے کے تحت زیر
عدالت مقدمات میں عدالتی نظام وسلامتی ایجنسیوں کا طرزعمل اور قانون میں شامل
دفعات ملزمین کے بنیادی انسانی و دستوری حقوق کے فلسفہ سے متضاد ہیں جس کی وجہ سے
انصاف کی عمومی کاروائی متاثر ہوتی ہے، عدالتی کاروائیوں کی تکمیل کے لیے کوئی
متعینہ مدت طے نہیں کی گئی ہے، موجودہ بل ان خامیوں کو مزید بدتر صورت حال سے
دوچار کرنے کے ہر ممکنہ اندیشوں کے امکانات رکھتا ہے، جس کے شکار آج تک اقلیتی و
پسماندہ طبقات ہی ہوئے ہیں، جب کہ اصل قانون کی ازسرنو اصلاح کی ضرورت تھی۔
۴۔تنظیم اور جماعت جیسی
وسیع اصطلاحات کو فرد کی اصطلاح میں تبدیل کرنا تفتیشی اداروں کو استحصال کا ایک
بدترین بہانہ مہیا کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس شق کے ذریعے وہ افراد بھی ظلم و
استحصال کا شکار یقیناًہوں گے جو دہشت گردانہ کارروائیوں سے پوری طرح ناواقف ہوں،
نیز وہ مشکوک یا ممکنہ عمل اس تنظیم یا ادارے کے کسی دیگر فرد سے دانستہ یا
نادانستہ طور پر سرزدہوگیا ہو،جس کی بنیاد پر پوری تنظیم یا ادارے کو ہراساں و سزا
کا نشانہ بنایا جائے گا۔ اسی طرح کسی فرد واحد کی غلطیوں کی سزا اس کے متحدہ
خاندان کو بھی بھگتنی پڑ سکتی ہے، کیونکہ اس بل نے فرد کی اصطلاح میں متحدہ ہندو
خاندان کو بھی جوڑ دیا ہے۔
۵۔ عدالتوں کو املاک ضبط
کرنے کے لامحدود اختیارات نواز ے گئے ہیں، حالانکہ ججوں کی ایمانداری پر میڈیا کے
ذریعہ مختلف سطحوں پرسوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، عدالتی نظام کے خودمختارانہ
اختیارات پر، نیز سیاسی و فرقہ وارانہ سلوک پربھی انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔
۶۔بینک اکاؤنٹس کی تمام تر
تفصیلات یوآئی ڈی (خصوصی شناختی نمبر) سے منسلک کردی گئی ہیں، جو سرویلانس و
نگرانی میں رکھا جائے گا، چنانچہ حکومت جب اور جس کا اکاؤنٹ چاہے گی مسدود کردے
گی، جس کی وجہ سے معصوم افراد کو بھی غیر ضروری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یوں ہندوستان کی تاریخ میں کالے قوانین کی شروعات
جرائم کی روک تھام کے لیے نہیں بلکہ عوامی بے چینی و احتجاجات کو قابو میں کرنے کی
غرض سے ہوئی، شروعات انگریز حکومت نے ۱۸۵۷ ء کی بغاوت کے بعد ممکنہ
خدشات کے تناظر میں کی، جبکہ سخت دفعات کے ساتھ قوانین و ضوابط مدون کیے گئے، تاہم
آزادی کے بعد اس میں اصلاح کے بجائے، اس میں مزید سخت گیر قوانین اور دفعات کا
اضافہ کیا گیا، مثلا انڈین پینل کوڈ اور انڈین پولیس ایکٹ کی دفعات آزادی حاصل
ہونے کے بعد بجائے ختم کرنے کے اس میں مزید سختی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد سخت
گیر قوانین کی تدوین کا سلسلہ جاری ہے، جس کی بنیاد ’’جرائم کے ارتقاء کے مقابل
قوانین کمزور ہیں‘‘ ہی بتائی جاتی ہے، حالانکہ ان قوانین کا نفاذ کبھی بھی
ایماندارانہ طرز پر نہیں ہوا، وقت کا تقاضا قوانین کا منظم نفاذ ہے نہ کہ قوانین
کو سخت کرنا مسائل کا حل ہے۔آج بھی ہمارے ملک میں پولیس کا تنظیمی ڈھانچہ
نیزٹریننگ نظام ۱۸۶۱ ء کے قانون پر منحصر ہے، جرائم میں مرتکب پولیس و خفیہ ایجنسیوں کے
اہلکاروں کی کوئی جواب دہی طے نہیں ہوسکی، ہندوستانی تاریخ گواہ ہے کہ ہر ’’خصوصی
قانون‘‘ کا استعمال صرف سیاسی و مذہبی اقلیات کو ہراساں کرنے کی غرض سے کیا گیا
ہے، جب کہ پولیس کی اصلاح حکومت کا بنیادی ایجنڈا ہونا چاہیے، اس قانون کے غلط
استعمال کی مثال ڈاکٹر بنائک سین، کوباڈ گاندھی، اجے ٹی جی، عبدالناصر مدنی، غلام
رسول، سیماآزاد اور سونی سوڑی کے علاوہ مسلم نوجوانوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس
قانون کا شکار ہوکر برسہابرس سے قیدخانوں کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں، جن
کے سلسلہ میں سیاسی و فرقہ وارانہ سازش کے الزامات حقوق انسانی کی تنظیمیں عائد
کرتی رہی ہیں۔
﴿مضمون
نگار اے پی سی آرکے اسسٹنٹ کوآرڈی نیٹر ہیں ﴾
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔