بھارت میں اُردو صحافت کے کوہ گراں،مولانا محمد مسلم
ظفرانورشکرپوری
آزادی کے بعد اردو صحافت کی جب تاریخ رقم کی جائے گی
تو سب سے پہلے اردو کے دو اکابرصحافیوں کا ذکر خیر کیا جائے گا ان میں سے ایک
مولانا محمد مسلم اور دوسرے مولانا عثمان فارقلیط تھے۔ مولانا مسلم نے صحافت کی
ابتدا روزنامہ بھوپال سے کی اور کچھ عرصہ بعد دہلی تشریف لے آئے اور روزنامہ دعوت
اخبار سے وابستہ ہوگئے۔ مسلم صاحب سے تربیت حاصل کرنے والے درجنوں صحافیوں میں
محفوظ الرحمن مرحوم اور دعوت کے موجودہ چیف ایڈیٹر پرواز رحمانی کے نام نامی
اسمائے گرامی شامل ہیں۔
محمد مسلم صاحب بھوپال کے رہنے والے تھے۔ شروع میں
خاکسار تحریک سے وابستہ تھے۔ مگر تقسیم ہند کے بعد خاکسار تحریک دم توڑ گئی۔ محمد
مسلم صاحب کے اندر ایک بے چین روح تھی جو قوم کے لیے کچھ کرتے رہنے کیلئے ہمیشہ بے
چین رہتی تھی اور وہ اجتماعی جدوجہد کرنے کے قائل تھے۔ جب خاکسار تحریک ہندوستان
میں دم توڑ گئی تو مسلم صاحب کو ایک ایسی تحریک کی تلاش تھی جو ملت اسلامیہ کے لیے
خیرخواہانہ جدوجہد کررہی ہو تاکہ وہ اس تنظیم میں شامل ہوجائیں۔ وہ کئی تنظیم کے
دفتروں میں گئے۔ جہاں بھی گئے لوگوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور کھانے پینے
کی بہترین چیزوں سے تواضع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر مسلم صاحب جیسے فقیر
منش شخص پر شاندار استقبال اور بہترین تواضع کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں کہ دنیا کی
رنگینی، اس کی دل فریبیاں اور شان وشوکت کے مظاہرے ان کے لیے ہیچ تھے۔ بہرحال مسلم
صاحب جماعت اسلامی کے دفتر بھی پہنچے اور امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث
اصلاحی ندوی سے ملاقات کی، صبح کا وقت تھا، مولانا ابواللیث کیلئے ناشتہ آیا تو
انہوں نے مسلم صاحب کو بھی شریک کرلیا۔ مسلم صاحب کیا دیکھتے ہیں کہ ناشتہ میں
باسی روٹی اور باسی سالن تھا دونوں نے ناشتہ کیا۔ مسلم صاحب اس سادگی سے بے حد
متاثر ہوئے۔ انہوں نے سوچا یہ مخلص لوگ ہیں جو روکھی سوکھی کھاکر دین وملت کی خدمت
کررہے ہیں، لہذا وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ اور پوری زندگی جماعت سے وابستہ
رہے۔ شروع میں ا نہوں نے اردو بازار، جامع مسجد دہلی میں کتاب کی دوکان کھولی مگر
جب جماعت اسلامی نے تنظیم کی کچھ ذمہ داری ان کے سپرد کی تو انہوں نے دکان
بلامعاوضہ جماعت اسلامی کے سپرد کردی اور خود کل وقتی کارکن کی حیثیت سے خدمات
انجام دینے لگے۔
محمد مسلم صاحب نے دعوت اخبار کے مدیر اعلیٰ کی
حیثیت سے جو خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اردو صحافت کو انہوں نے
اپنی بے باکی اور دیانت داری، خود داری اور ایمانداری سے عزت وآبرو بخشی۔ 1971 ء
کی بات ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان کا ایک حصہ تھا۔ بنگلہ دیشی پاکستان سے جو مغربی
پاکستان کہلاتا تھا آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگ کررہے تھے ہندوستان میں بہت سے
بنگلہ دیشی جان بچانے کے لیے گھس آئے۔ ہندوستان نے ان شررنارتھیوں کی مہمان نوازی
کا حق ادا کیا۔ چونکہ ہندوستان کی سرحد پر جنگ ہورہی تھی اس لئے ہندوستان اس جنگ
سے لاتعلق نہیں رہ سکتا تھا۔ پاکستان کی فوج بنگلہ دیش میں بھی تھی۔ مشرقی پاکستان
کے حالات غیر یقینی تھے۔ یہ کہنا دشوار تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ دعوت میں
برابر مضمون شائع ہورہے تھے جس کا لب لباب تھا کہ ہندوستان کو بڑے بھائی کا رول
ادا کرنے اور وہاں امن وامان بحال کرنے میں فعال رول ادا کرنا چاہئے۔ یہ خیال
وانداز حکومت کو پسند نہیں آیا لہذا ہوم سکریٹری کی طرف سے ایڈیٹر صاحب کی طلبی
ہوئی تو مسلم صاحب نے خود جانے کے بجائے منیجر صاحب کو بھیج دیا۔ ہوم سکریٹری نے
منیجر صاحب کو واپس لوٹادیا اور ایڈیٹر صاحب کو بھیجنے کے لیے کہا اس پر مسلم صاحب
ہوم سکریٹری کے دفتر پہنچے۔ ہوم سیکریٹری نے مسلم صاحب سے کہا کہ آپ بنگلہ دیش کے
تعلق سے جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ بالکل مناسب نہیں ہے۔ آپ کو انداز بدلنا ہوگا۔ اس
پر مسلم صاحب نے اپنا قلم جیب سے نکال کر ہوم سکریٹری کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا
اور کہا یہ قلم ٹوٹ سکتا ہے مگر آپ کے اشارے پر نہیں ناچ سکتا۔ یہ کہہ کر وہ وہاں
سے چلے آئے پھر دوسرے یا تیسرے دن مسلم صاحب گرفتار کرلئے گئے۔ یہاں سوال جائز یا
ناجائز یا حق یا ناحق کا نہیں ہے بلکہ جس چیز کو مسلم صاحب نے حق سمجھا اس کو بے
باکی سے پیش کیا اور مصلحتوں کو کبھی پیش نظر نہیں رکھا۔ آپ کے دور ادارت میں دعوت
اردو کے صف اول کے اخبار میں شمار ہوتا تھا۔ اور آپ اردو کے صف اول کے صحافی۔
ہندوستان کے تمام اردواخبارات کے ایڈیٹرز آپ کے دفتر آتے رہتے جس کی وجہ سے ان کا
دفتر تمام اردو مدیران کا مرکز بن گیا تھا۔ آپ کے ہی دفتر میں آل انڈیا اردو
ایڈیٹرز کانفرنس کی بنیاد پڑی۔ مسلم مجلس مشاورت بھی آپ کے دماغ کی پیداوار تھی۔
کوئی بھی معاملہ ہو، سیاسی، اخلاقی، تمدنی، معاشرتی یا سماجی آپ ہر مسئلہ کو
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھتے اور اس کا اسلامی حل تلاش کرتے۔ آپ کی ہر تحریر اسلامی
فکر ونظر کی ترجمان ہوتی اور جو کچھ لکھتے دلیل وبرہان سے لکھتے۔ آپ کی موت کے بعد
کمیونسٹوں کے ترجمان بلٹز (اردو ہفت روزہ) نے تعزیتی مضمون میں اس بات کا اعتراف
کرتے ہوئے لکھا کہ ہمارے اور مسلم صاحب کے فکر ونظر میں اختلاف ہونے کے باوجود ان
کے مضامین میں کہی گئی باتوں کو قبول کرنے کے لیے دل راغب ہوجاتاہے کیوں کہ وہ جو
کچھ لکھتے دل نشین دلائل کے ساتھ لکھتے۔جماعت اسلامی کے ترجمان دعوت اخبار کے
ایڈیٹر کی موت پر کمیونسٹ اخبار کا تعزیتی مضمون لکھنا اور ان کے لکھے مضامین کی
تحسین کرنا محمد مسلم صاحب کے عظیم ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
محمد مسلم صاحب کے تعلقات بہت سے اہم سیاسی لیڈروں
کے ساتھ گہرے تھے۔ ڈاکٹر شنکر دیال شرما جو بعد میں صدر جمہوریہ ہوئے ان سے مولانا
کے ذاتی مراسم تھے۔ اندر کمار گجرال جو بعد میں وزیر اعظم ہوئے ان کی بیوی مسلم
صاحب کو پہنچا ہوا بزرگ فقیر سمجھتی تھیں اور بڑی عقیدت اور عزت سے پیش آتی تھیں۔
شیر کشمیر شیخ عبداللہ بھی دعوت کے دفتر میں آتے رہتے تھے۔کئی ملکوں کے سفیر آپ کے
گھر پر ملاقات کیلئے اکثر آیا کرتے۔ ان کے گھر میں کرسی تک نہ تھی۔ صوفہ کا کیا
ذکر۔ ایک پرانا فرش تھا جس پر خود بیٹھا کرتے تھے اور جو بھی غیر ملکی سفیر آتے ان
کو فرش پر بٹھاتے۔ ایک بار امیر جماعت اسلامی نے ان سے کہا کہ آپ کے یہاں کئی ملکوں
کے سفیر آتے رہتے ہیں لہذا ہم آپ کیلئے صوفہ کا انتظام کئے دیتے ہیں مگر مسلم صاحب
نے انکار کردیا کیوں کہ ان کو فقیرانہ زندگی پسند تھی۔ شیروانی آپ کا مخصوص لباس
تھا جو گھر کا دھلا ہوتا مگر پریس کیا ہوا نہ ہوتا۔ نرم مزاج تھے اور ساتھ ہی نرم
زبان بھی۔ کارکنان کے ساتھ سختی سے کبھی پیش آتے ان کو نہیں دیکھا گیا۔
جماعت اسلامی میں اکابر اور کارکنان کو جو تنخواہیں
ملتی تھیں وہ بہت قلیل ہوتی تھیں جس کو کفاف کہنا چاہئے۔ مسلم صاحب کو بھی قلیل
تنخواہ ملتی تھی۔ ان کی اہلیہ باصلاحیت، ذہین، سلیقہ شعار اور بہترین منتظم تھیں۔
قلیل تنخواہ میں 13 آدمیوں پر مشتمل گھر کو بہت خوش اسلوبی سے چلاتیں اور گھر کو
چلانے میں جو دقتیں اور دشواریاں پیش آتیں اس کا ذکر شوہر سے نہیں کرتیں۔ اس طرح
محمد مسلم صاحب کو سکون واطمینان کے ساتھ صحافتی خدمات انجام دینے کا موقع مل
جاتا۔ گھر کے ماحول کو مذہبی بنائے رکھنے کا خاص خیال رکھتیں۔ بچوں کی تعلیم
وتربیت پر بھی خاص دھیان دیتیں۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے عبداللہ اسلم امریکہ کے شہری
ہیں اور ایک بہت بڑی مسلم دعوتی تنظیم کے ڈائرکٹر ہیں۔ عبداللہ اسلم صاحب ہندوستان
میں منعقد دعوت وتبلیغ کے کئی اجتماعات کو خطاب کرچکے ہیں یہی نہیں بلکہ بعض
اجتماعات کے منعقد کرنے میں مالی امداد بھی کیا ہے۔ عبداللہ اسلم اپنے والد کی طرح
سادہ لباس میں ملبوس رہتے ہیں۔محمد مسلم صاحب کے دور میں دعوت اخبار ایک مخصوص
بلندی پر پہنچا تھا۔ نہ صرف ملک کے تمام اردو اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان کی مسلم
صاحب کے پاس آمد ورفت لگی رہتی تھی بلکہ سیاست سے وابستہ اہم لیڈران بھی آپ کے
دفتر آتے جاتے رہتے تھے شاید ہی اردو کے کسی دوسرے اخبارات کو یہ شرف حاصل ہوا ہو۔
ان کی موت سے جو خلاء پیدا ہوگیا وہ اب تک پُر نہیں ہوسکا۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر
کو تاقیامت نور سے روشن رکھے۔ آمین
مسلم صاحب کے بڑے صاحبزادہ امریکہ میں ہیں ان کے دو
لڑکے اور ایک لڑکی سعودی عرب میں مقیم ہیں اور دو مزید لڑکیاں اپنے شوہر کے ساتھ
شکاگو میں ہیں۔ہاشم رضا عابدی الہ آبادی، سابق ممبر پارلیمنٹ کی ایک تحریر سے پتہ
چلتا ہے کہ عبداللہ اسلم نے دہلی میں رات کی تاریکی میں رکشہ بھی چلایا ہے۔ مگر یہ
صاحب اب آسمان کی بلندی پر ہیں۔ برطانیہ سے انہوں نے ایم فل کیا اور وہاں درس
وتدریس کے فرائض انجام دئیے اور پھر امریکہ میں بھی پڑھا اور پڑھایا۔ امریکہ سے
ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ عبداللہ اسلم تقریبا اٹھارہ کتابوں کے مصنف ہیں۔
1986 میں مولانا محمد مسلم کے وفات کے بعد جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے
ان کی یاد میں ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ
نظریات وخیالات بھی بدل گئے اور ان کی خدمات کو بالکل فراموش کردیا گیا۔ اب طویل
عرصہ گذرنے کے بعد مرحوم صحافی کے لائق فرزندوں نے اپنے قدیم رہائشی مکان کو جس
میں وہ بطور کرایہ دار قیام پذیر تھے اس نیک ارادے کے ساتھ خرید لیا ہے کہ اس میں
جدید انداز کا صحافتی تربیت کا ادارہ (محمد مسلم میوریل لائبریری اینڈ انسٹی ٹیوٹ
آف اردو جرنلزم) قائم کیا جائے امید ہے کہ اس کارخیر میں جماعت کے موجودہ وابستگان
اور ملک وملت کے دوسرے بہی خواہان بھی اس کام میں تعاون فرمائیں گے تاکہ مولانا
محمد مسلم کی طرز نگارش، حق گوئی وبے باکی اور سنجیدگی ومتانت کے حامل اردو
صحافیوں کی ایک جماعت ہمیشہ میدان عمل میں سرگرم عمل رہے۔
مولانا محمد مسلم نے سہ روزہ دعوت کی ادارت سنبھالنے
کے بعد اپنا مشہور کالم ’’خبر ونظر‘‘ شروع کیا تھا جسے برصغیر کے اردوداں حلقے میں
بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور دعوت کے قارئین اس کالم کو پڑھنے کے لئے اگلے شمارے سے
بیچینی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ ان کے لائق فرزندوں خاص کر
اطہر مسلم صاحب نے 1954 سے 1969 تک پندرہ سال کے خبرونظر کے کالموں کا مجموعہ مرتب
کرلیا ہے اور مولانا مسلم کے نام سے موسوم صحافتی ادارے کی طرف سے جلد ہی شائع
ہونے والا ہے۔ صحافیوں کی نئی نسل نے جس نے مولانا مسلم کے ذہن افروز کالم خبر
ونظر کا مطالعہ کبھی نہیں کیا اس کے لیے یہ کتاب ایک رہنما اور گائیڈ کا کام دے گی
اور اسے ملکی وعالمی مسائل پر بے باکانہ قلم اٹھانے کا حوصلہ ملے گا۔ ضرورت اس بات
کی ہے دیگر مرحوم صحافیوں کے پسندیدہ کالم بھی اسی طرز پر جمع کردئے جائیں تاکہ
نسل نو اس سے مستفید ہوسکے۔
یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا اور اردو ڈیولپمنٹ
آرگنائزیشن کے زیر اہتمام 9 نومبر 2012 کو عالمی یوم اردو منایا گیا۔ حسب روایت اس
سال کا یادگاری مجلہ مولانا محمد مسلم کی حیات وخدمات پر مشتمل ہے۔ مجلس ادارت میں
معروف صحافی سہیل انجم اور جاوید اختر کے علاوہ اردو کے معروف خادم ڈاکٹر سید احمد
خاں کے نام شامل ہیں۔ اس میں مختلف حضرات کے تعارفی مضامین کے علاوہ چند مضامین
مولانا محمد مسلم مرحوم کے بھی ہیں۔ جماعت اسلامی حیدرآباد نے امسال جنوری میں
مولانا محمد مسلم کی یاد میں یادگار مجلہ شائع کیا ہے جس میں 30 سے زیادہ مضامین
شامل ہیں۔ یہ مضامین امت مسلمہ کے عام افراد اور نئی نسل کے ان نوجوانوں کے لیے
مرتب کیا گیا ہے جو دینی، ملی وسماجی سرگرمیوں میں کسی مثالی کردار کے متلاشی رہتے
ہیں۔
﴿ مضمون نگار سینیر صحافی ہیں روزنامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں ﴾
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔