حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

اتوار، 17 مارچ، 2013

کتنی مسلم تنظیموں نے مسلمانوں کے لئے بجٹ کا خاکہ پیش کیا؟


کتنی مسلم تنظیموں نے مسلمانوں کے لئے بجٹ کا خاکہ پیش کیا؟ 
گزشتہ ۲۸؍ فروری کو مرکزی سرکار نے جب عام بجٹ پیش کیا تو حسب معمول اس پر مثبت اور منفی
 تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملک کے بڑے حلقے نے بجٹ کی کمیوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے عوام کے ساتھ دھوکا قرار دیا لیکن برسراقتدار اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد اور استعمار کے فروغ میں یقین رکھنے والوں نے سرکار کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے متوازن بجٹ کا نام دیا اور اسے ملک کی اقتصادی ترقی کا ضامن قرار دیا۔ لہٰذا چوطرفہ تبصرے ہوئے ۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریتی آبادی، نے جو کہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ، بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے مسلم مخالف گردانتے ہوئے بجٹ پر تیز وتند تبصرے کئے۔ پریس ریلیز، سمپوزیم اور پریس کانفرنسوں میں بجٹ کو موضوع بحث بناتے ہوئے تنقید کی گئی۔ بجٹ میں دفاعی اخراجات پر اعتراض ، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی ، اقلیتوں، دلتوں اور آدی باسیوں کو دیئے جانے والے بجٹ پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اقلیتی بجٹ کا تجزیہ کرنے والے مسلم دانشور اقلیتوں کے لئے مختص بجٹ کو مسلم بجٹ سمجھ بیٹھے اورجم کر بحث ومباحثے ہوئے، اعداد و شمار کی بازیگری میں الجھے نظر آئے۔ 
اقلیتی بجٹ کو مسلم بجٹ کے طور پر پیش کرنے میں میڈیا نے بھی اہم رول ادا کیا، خاص طور سے اردو اخبارات میں بجٹ کی خبروں کو کچھ اس طرح پیش کیاگیا جس سے اس غلط فہمی میں مزیداضافہ ہوا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ موقع ہر سال آتا ہے جب مرکزی سرکار آئندہ ایک برس کے لئے اخراجات طے کرتی ہے جس میں اقلیتوں سمیت تمام طبقات کی حصے داری طے کی جاتی ہے ۔ گزشتہ بجٹ میں دی گئی رقوم کے خرچ اور مطالبات کے پیش نظر آئندہ بجٹ ترتیب دیاجاتا ہے اور یہ کام ایک دو دن میں نہیں پورا ہوتابلکہ اس پر کئی ماہ صرف کئے جاتے ہیں، سبھی وزارتوں سے مشورے طلب کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد اقتصادی و معاشی ماہرین اس پر اپنی حتمی رائے دیتے ہیں۔اس وقت مسلم دانشوران کہاں سوجاتے ہیں؟ اس بجٹ سے قبل کتنی مسلم تنظیموں نے اقلیتی وزارت کے توسط سے مسلمانوں کے لئے بجٹ کا خاکہ پیش کرنے کا کام کیا؟ اور گزشتہ بجٹ کے نفاذ میں عملی دشواریوں کو دور کرنے کی عملی کوشش کی؟ کیا ہمارے درمیان اقتصادی ومعاشی امور کے ماہرین دستیاب نہیں ہیں جو بجٹ کے مختلف امور پر سیرحاصل بحث کرکے مشورہ دے سکیں؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جس طرح بجٹ کے بعد اس کے تجزیے میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں اگر بجٹ پیش ہونے سے قبل مسلم دانشوران کاایک ایسا گروپ جو بجٹ کے امور پر اچھی واقفیت رکھتا ہو اس پر کام کرے اور پورے معاملے کا جائزہ لے تو حالت میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ سرکار کی مالی امداد فراہم کرنے کی سبھی اسکیمیں سودی قرض کی بنیاد پر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کا بڑاحصہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا، جبکہ دیگراقلیتیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں ، مرکزی سرکار قومی اقلیتی مالیاتی فنڈ کے نام پر خطیر رقم طے کرتی ہے لیکن اس کا خاطرخواہ فائدہ مسلمانوں تک سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچ پاتا، اس صورت میں سرکار سے مل کران مشکلات پر بھی بات ہونی چاہئے، وہ لوگ جو سودی قرض نہیں لیتے ان کے لئے الگ طریق کار وضع کرنے پر سرکار کو بہتر ڈھنگ سے بتانے کی ضرورت ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل کا حل محض وقتی تنقید اور بیان بازی سے نہیں ہوسکتا اس کے لئے سنجیدگی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ ہر آنے والا بجٹ مسلمانوں کے لئے مایوس کن ہی ثابت ہوگا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے درمیان دانشوروں کاایک ایسا گروپ ہو جو ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بجٹ کا خاکہ پیش کرے اور اس کو شامل کرانے کے لئے سیاسی وسماجی رہنماؤں کا گروپ اپنے طور پر کوشش کرے۔

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔