بھارت میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں، چند حقائق
ابوبکر سباق سبحانی
مہمان کالم
اگر آپ کی آنکھوں میں آنسو کے دوچند قطرے باقی ہوں ، تو ان کو بہانے کا شاید اس سے زیادہ موزوں کوئی موقع نہ ملے یہ جملہ ایڈوکیٹ روی چندرن نے مکہ مسجد بم دھماکے کے بے گناہ مسلم ملزمین پر کئے گئے پولیس کے مظالم، دہشت گردی کے بے بنیاد و بے جا الزام میں غیرقانونی گرفتاریوں نیز ٹارچر سے متعلق شکایات کے سلسلے میں آندھراپردیش اسٹیٹ اقلیتی کمیشن کے ذریعے تشکیل کردہ روی چندرن کمیشن رپورٹ کا خلاصہ کرتے ہوئے تحریر کیا تھا۔
مکہ مسجد بم دھماکے کا حادثہ آج سے تقریبا پانچ سال قبل پیش آیا تھا، یہ واقعہ اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے، اگرچہ اس حادثہ سے متعلق بیشترواقعات دیگر دہشت گردانہ حادثات سے قبل یا بعد از وقوع واقعات سے بنیادی طور پر مماثلت رکھتے ہیں، تاہم کچھ زاویے اس کو منفرد بھی کرتے ہیں۔دھماکہ ہوا، ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی، اس کی ملک کے ہر گوشے اور ہر گلیارے میں ملامت و مذمت کی گئی، خبررساں ایجنسیاں اور ان کی سربراہ سرکاری خفیہ و پولیس ایجنسیاں تفتیش سے زیادہ ایک بار پھر تشویش میں مبتلا ہوگئیں ، تشویش کہ ہمارے ملک کا مسلمان، خصوصا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ دہشت گردی و حکومت مخالف نہ کہہ کے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ایک دھبہ پھرمسلم قوم کے، جو ذہنی و دماغی سطح پر احساس اقلیت سے بری طرح دوچارہے ، ایک بار پھر اپنے دامن میں لگاکے، احساس ندامت اور مدافعت میں آنکھیں جھکائے ، خاموش انجام کار سے خوف زدہ ہوگئی۔
بہر صورت، کچھ نوجوان ایک دفعہ پھر دہشت گردی کا الزام اپنے سر لینے پر مجبور ہوئے، ایک بڑی کامیابی ہمارے ملک کی سرکاری ایجنسیوں کو حاصل ہوئی، ایک بار پھر رتبے بلند ہوئے، انعامات تقسیم ہوئے، تعلیم یافتہ مسلم نوجوان گرفتار ہوئے تھے، گرفتار شدہ نوجوانوں کی فہرست میں ایک نام ابراہیم جنید کا آتا ہے، ابراہیم کو حیدرآباد پولیس نے ۳؍ ستمبر ۲۰۰۷ ء کو غیر قانونی حراست میں اغوا کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے لیا تھا، ابراہیم کے اہل خانہ نے ۵؍ ستمبر ۲۰۰۷ ء کو حیدرآباد ہائی کورٹ میں تلاش گمشدہ Habeas Corpusکی درخواست داخل کی، پولیس کو ہائی کورٹ نے نوٹس بھیجا ، جس کے جواب میں پولیس نے ۱۳ ؍ستمبر کو یہ دعوی کیا کہ ابراہیم جنید کو حیدرآباد پولیس نے ۸ ؍ستمبر کو گرفتار کیا تھا، پولیس کے اس غیر قانونی عمل کا تذکرہ روی چندرن کمیشن رپورٹ میں پولیس کی بے جا زیادتیوں اور لاقانونیت کے تذکرے کے دوران بھی کیا گیا ہے۔
پولیس ریمانڈ میں ان کے شب و روز حد درجہ ظلم و ستم کے باوجود شاید اس قدر گراں نہ گزرے ، جتنے کہ ان کے اہل خانہ پر گراں گزرے تھے، جس کا سبب ان کے ساتھ سماج کا رویہ اور اندازتھا۔
پولیس خیموں میں جشن کے بعد ایک بار پھر ثبوتوں کی تخلیق کا دور شروع ہوا، ثبوتوں کا یکجا کرنا تو گویاپولیس نظام میں ایک دقیانوسی خیال کا درجہ رکھتا ہے، یا تربیتی کورسز کی کتابوں کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مقدمات عدالت میں آئے، وہی سست رفتار تاہم دیر آید درست آید، مکمل نہیں تو ادھورے سہی، عدالت سے تمام ملزمین باعزت بری ہوئے، یہ واحد واقعہ نہیں تھا، ہمارے ملک میں اکثر و بیشتر دہشت گردانہ حادثات کا اختتام یہیں پر ہوا ہے، تاہم مکہ مسجدبم دھماکے میں جن نوجوانوں کو بے جا ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا تھا، ان کی شکایات کو صوبائی اقلیتی کمیشن نے اہمیت دی، اس کی تفتیش کی گئی جو صرف تشویش کے سردخانے میں نہیں رکھی گئیں، بلکہ متاثرین کو معاوضہ بھی دیا گیا، البتہ جنھوں نے سازش کی تھی، وہ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
ان نوجوانوں کے خلاف عدالت میں بطور ثبوت صرف وہ اقبالیہ بیانات پیش کئے گئے تھے، جو بیانات پولیس نے حراست کے دوران حاصل کئے تھے ، معمول کے مطابق پولیس نے ٹارچر کے دوران سادہ صفحات پر ان ملزمین کے دستخط حاصل کئے، حسب ضرورت بیانات درج کئے گئے، جو دوران کاروائی عدالت میں پیش کئے گئے، جب کہ قانونی نقطہ ء نظر سے پولیس حراست کے دوران دئیے گئے کسی بھی اقبالیہ بیان کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہوتی ، قانونا تفتیش کی تکمیل کے بعد پولیس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ کیس ڈائری کو شروع سے آخر تک نمبر ڈال کے ، کل صفحات کی تعداد نیز ہر صفحہ پر ضلع عدالت کے جج کی دستخط ہوتاکہ بعد میں پولیس ردوبدل نہ کرسکے تاہم اس چیز کا خیال نہ تو ہماری عدالت کرتی ہے اور نہ ہی وکیل، جس کا تذکرہ ۲۰۱۰ ء کے ایک فیصلے راکیش بنام دہلی اسٹیٹ کے کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے صاف الفاظ میں حکم صادر کیا ہے۔بہرحال ان تمام نوجوانوں کو عدالت نے ہر طرح کے الزامات سے بری قرار دیتے ہوئے پولیس کی کہانی کو من گھڑت اور بے بنیاد تسلیم کیا۔
دوسرا اہم واقعہ مالیگاؤں بم دھماکے کا ہے، حادثہ ۸؍ ستمبر ۲۰۰۶ ء کو پیش آیا ، جس میں ۳۸؍ افراد جاں بحق ہوئے، سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، اس روز مالیگاؤں میں کل تین دھماکے ہوئے تھے۔ ۹؍ مسلم نوجوان گرفتار کئے گئے ، ان سبھی افراد کے خلاف بھی تعزیرات ہند کی وہی دفعات ۱۲۰بی، ۱۲۱،۱۲۲،۱۲۳ اور ۱۲۴ وغیرہ کے تحت مقدمات قائم کئے گئے، ان نوجوانوں کے اوپر الزام نہیں بلکہ یہ جرم عدالتی کاروائی شروع ہونے سے پہلے ہی ثابت کردیا گیا کہ یہ افراد ہمارے ملک ہندوستان کے خلاف جنگ کررہے تھے،ملک کے خلاف بغاوت کا جرم ثابت کرنے کی میڈیا اور پولیس نے حتی المقدور کوششیں کیں ، اس حادثہ کی سازش کا ماسٹر مائنڈ شبیر مسیح اللہ کو بتایا گیا، جبکہ شبیر مسیح اللہ حادثہ سے دو ماہ قبل سے ممبئی پولیس کی حراست میں تھایعنی جولائی ۲۰۰۶ ء سے وہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہا تھا، دوسرا اہم ملزم محمد زاہد عبدالماجد انصاری تھا، جس کے اوپر دہشت گردانہ کارروائی کو روبہ عمل لانے کا الزام تھا، تاہم زاہد اس وقت مالیگاؤں سے ۷۰۰؍ کلومیٹر دور پھول ساونگی گاؤں ایوت مل ضلع مہاراشٹر میں جمعہ کی نماز کی امامت کررہاتھا، جس کو عدالت نے تسلیم کیا۔ اس کیس کا ایک ملزم ابرار احمد ہے، جس نے ۱۸؍ اپریل ۲۰۰۹ ء کو عدالت میں ایک حلف نامہ داخل کرکے یہ دعوی کیا تھا کہ ۲۳؍ اور ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ ئکو غیر قانونی حراست کے دوران اس کو کرنل پروہت کے گھر دیولالی کیمپ ، ناسک میں رکھا گیا، جو مالیگاؤں ، مکہ مسجد ، اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں میں بطور ملزم و ماسٹر پلانر جیل میں بند ہے۔ یہ حقیقت قابل غور ہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی اور ان تمام دہشت گرادنہ حادثات میں آر ڈی ایکس و دیگر ہتھیار فراہم کرنے والے شخص کرنل پرساد پروہت کے درمیان تعلقات کافی گہرے تھے،رگھوونشی نے پروہت کو ۲۰۰۵ ء میں اے ٹی ایس افسران کو دہشت گردی پر کنٹرول کرنے کی تربیت و ٹریننگ کے لیے بلایا تھا۔پروہت کا اسرائیل سے مستقل رابطہ تھا، اسرائیل نے پروہت کو ہر ممکنہ تعاون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کا اعتراف سوامی اسیمانند نے اپنے اقبالیہ بیان میں کیا ہے، یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہوگا کہ سوامی اسیمانند نے اپنا اقبالیہ بیان پولیس حراست میں کسی دباؤ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی آزادی و رضامندی کا استعمال کرتے ہوئے عدالت میں جج کے سامنے تحریر کیا ، یہ جانتے ہوئے کہ سی آر پی سی کی دفعہ ۱۶۴ کے تحت دیے جانے والے اس اقبالیہ بیان کہ حیثیت ایک مضبوط ثبوت کی ہوتی ہے، جس کا استعمال عدالتی کاروائی کے دوران کیا جاسکتا ہے۔
ستمبر ۲۰۰۸ ء میں ایک بار پھر مالیگاؤں بم دھماکے سے لرز اٹھا، تاہم اس بار مسلمانوں کی خوش نصیبی تھی کہ اے ٹی ایس مہاراشٹرکی باگ ڈور آنجہانی ہیمنت کرکرے کے ہاتھ میں تھی، کرنل پروہت اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر وغیرہ گرفتار ہوئے، ہندتو دہشت گردی سے پردہ اٹھا، ۲۰۰۶ ء بم دھماکے کی این آئی اے نے ازسرنو تفتیش کی، بالآخر سبھی ۹؍ بے گناہ مسلم نوجوان باعزت بری کئے گئے، البتہ مالیگاؤں بم دھماکے کی انصاف کی گھڑی آنے تک دو اہم شخصیات کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑی، ایک عظیم و ایمان دار وکیل شاہد اعظمی، جنھوں نے ملزمین کو انصاف دلانے کا قانونی بیڑہ اٹھایا جو نامعلوم مسلح افراد کے ذریعے شہید کردیے گئے، شاہد اعظمی کی شہادت آج تک ایک معمہ ہے جبکہ ان کی زندگی انصاف کی لڑائی لڑنے والے افراد کے لیے ایک مثال بن کر رہ گئی۔
دوسرا بڑا نقصان ہیمنت کرکرے کی شہادت کے ساتھ ہوا، جن کے قتل کے بعد ان کی شروع کی ہوئی تفتیش ان کے ساتھ ہی راکھ کے ڈھیر میں کہیں دب کر رہ گئی، وہ تمام ہی جانچ وہی رک گئیں جہاں تک ہیمنت کرکرے نے ان کو پہنچایا تھا، چاہے وہ مالیگاؤں بم دھماکہ رہا ہو یا سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ یا اجمیر شریف کا دہشت گردانہ واقعہ۔
سمجھوتہ ایکسپریس میں۲۰۰۶ ء میں بم دھماکہ ہوا، حادثہ ہوتے ہی مرکزی حکومت نے آئی ایس آئی ( پاکستانی خفیہ ایجینسی) کا ہاتھ ہونے کا اعلان کردیا، تاہم بم دھماکہ کے ایک مہینے کے اندر ہی ہریانہ پولیس تفتیش کرتے ہوئے اندور(مدھیہ پردیش) پہنچ گئی، بقول ہریانہ پولیس وہ معاملہ کی گہرائی تک پہنچ گئی تھی، تاہم مدھیہ پردیش پولیس نے ہریانہ پولیس کا نہ تو تعاون کیا اور نہ وہ حالات بننے دئیے جن میں تفتیش ہوسکتی، چنانچہ ہریانہ پولیس غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے واپس آگئی، سمجھوتہ ایکسپریس جانچ کی فائیل کسی تہہ خانے میں دبادی گئی، ۲۰۰۸ ء میں مالیگاؤں میں ایک بار پھر بم دھماکے ہوئے تھے، جس کی تفتیش آنجہانی ہیمنت کرکرے کررہے تھے، دوران تفتیش پروہت کا نارکو ٹیسٹ ہوا، پروہت نے نارکوٹیسٹ کے دوران سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا، لیکن ایک بار پھر آئی بی کا متعصب ذہن سامنے آگیا، آئی بی نے مہاراشٹر اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے پر پورا دباؤ بنایاکہ وہ اس زاویہ سے کوئی انکوائری نہ کریں کیونکہ مرکزی حکومت کی عالمی سطح پر بدنامی ہوگی، بدنامی کی وجہ مرکزی حکومت کا وہ بیان تھا جس میں اس نے حادثہ ہوتے ہی حسب معمول آئی ایس آئی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا، بہرحال مارچ ۲۰۰۷ ء میں ہریانہ پولیس نے تفتیش جہاں چھوڑی تھی این آئی اے نے وہیں سے دوبارہ شروع کی اور ۲۰۱۱ ء میں پایہء تکمیل تک پہنچایا، جس کی چارج شیٹ انڈین ایکسپریس پونہ ایڈیشن میں بتاریخ ۲۲؍ جون ۲۰۱۱ ء کو شائع ہوئی ۔
ایک اہم مثال اترپردیش کے سلسلہ وار بم دھماکوں کی ہے، یہ بم دھماکے گورکھپور، فیض آباد اور بارہ بنکی کی ضلع عدالتوں میں ۲۳؍ نومبر ۲۰۰۷ ء کو ہوئے، جس میں تقریبا چودہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جس کے بعد اترپردیش اے ٹی ایس نے طارق قاسمی اور خالد مجاہد کو ۲۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ ء میں بارہ بنکی ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کرنے کا ڈرامہ کیا۔ جب کہ طارق قاسمی کو ۱۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ ء کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا ، جب وہ شیرواں ضلع اعظم گڑھ اپنی موٹر سائیکل سے تبلیغی جماعت کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے جارہے تھے۔پورے ضلع اعظم گڑھ میں شور مچ گیا تھا، جو شور پورے صوبے میں برپا ہوا تھا، اخبارات کے پہلے صفحہ کی خبر بنی تھی، ۱۴؍ دسمبر ۲۰۰۷ ء کو طارق قاسمی کے دادا نے مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کی تھی،نیز اترپردیش کی وزیر اعلی مایاوتی کو بھی درخواست بھیجی گئی تھی۔
جب کہ خالد مجاہد کو ۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۷ ء کو مڑیاہوں بازار ضلع جونپور سے اغوا کیا گیا تھا، ایس ٹی ایف اترپردیش کے جوان سادہ لباس میں آئے، خالد کو ٹاٹا سومو میں بہ زور طاقت ڈالا گیا، ان کے کزن نے اسی روز پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کی، جبکہ خالد کے چچا نے وزیراعلی اترپردیش، ڈی ایم ضلع جونپور اور آئی جی لکھنو زون کو بتاریخ ۱۹؍ دسمبر اسپیڈ پوسٹ کے ذریعہ درخواستیں ارسال کی تھیں۔ یہ ہے ان دونوں بے گناہ نوجوانوں کا سچ جس کی تصدیق ۱۵؍ ستمبر ۲۰۰۹ ء کا وہ آرٹی آئی جواب بھی کرتا ہے جو مڑیاہوں سی او کے رابطہ عامہ آفیسر نے دیا کہ 146146 خالد کو مڑیاہوں بازار سے ایس ٹی ایف کے ذریعے اغواکیاگیا تھا145145۔
اس وقت کی وزیر اعلی مایاوتی نے اس پورے معاملہ کی ازسرنوتفتیش کی غرض سے ایک کمیشن بنام نمیش کمیشن کی تشکیل دی تھی، جو حال ہی میں۲؍ ستمبر ۲۰۱۲ ء کو اترپردیش کی نام نہاد سماج وادی پارٹی کی سرکار کو پیش کی جاچکی ہے، تاہم اس کے منظر عام پر آنے کا انتظار پچھلے کئی مہینوں سے ہورہا ہے، اے پی سی آر کے کوآرڈینٹر اخلاق احمدنے آرٹی آئی کا استعمال کرتے ہوئے کمیشن کی رپورٹ مانگی، تاہم ناکامی ہوئی۔یہاں یہ تذکرہ کرنا مناسب ہوگا کہ جب طارق قاسمی کا اغوا ہوا تھا، ایک ہفتہ سے زائد وقت گزرنے کے بعد بھی کوئی سراغ نہ مل سکا ، مسلمانوں کی بے چینی دیکھتے ہوئے سیاسی مظاہرے بھی ہوئے تھے، اخبارات کی سرخیاں بھی بنیں، پچھلے الیکشن تک ان بے گناہوں کو آزاد کرنے کے سیاسی وعدے بھی ہوئے، سماجوادی پارٹی نے اس ایجنڈے کو اپنے الیکشن مینیفیسٹو (سیاسی منشور) میں بھی شامل کیاتھا،محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے الیکشن میں بھی یہ وعدہ مسلم قوم کے لئے ایک بہلاوا بننے کا شرف حاصل کرے گا۔
ہر دہشت گردانہ کارروائی کے بعد میڈیا یا پولیس کو چند ہی منٹوں میں کوئی ای میل موصول ہوتا ہے، جس میں کبھی انڈین مجاہدین ، کبھی ہوجی یا ایسی ہی کوئی دیگر اسلامی جہادی جماعت ذمہ داری قبول کرلیتی ہے، اور پھر مسلم نوجوانوں کی بے جا گرفتاریوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ایسا ہی ایک ای میل ۲۰۰۸ ء کے احمدآباد بلاسٹ سے پانچ منٹ پہلے انڈیا ٹی وی کو موصول ہوا، جس میں انڈین مجاہدین نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی، ای میل 146146 العربی گجرات145145 کے اکاؤنٹ سے آیا تھا۔ جس کمپیوٹر سے وہ ای میل بھیجا گیا تھا وہ ایک امریکی شہری کین ہیووڈ کا نکلا جو نوی ممبئی میں ایک کرائے کے فلیٹ میں رہ رہاتھا۔کین کے مطابق اس کا نیٹ ورک کسی نے ہیک کرکے وہ ای میل بھیجا تھا، تاہم یہ دعوی اس صورت میں پوری طرح رد کیا جاسکتا ہے کیونکہ کین ہیووڈ ایک کمپیوٹر اسکپرٹ اور آئی ٹی لیکچرر تھا، اسی بیچ پراسرار طریقہ سے کین ہیووڈ ہندوستان سے واپس چلا گیا جب کہ تفتیش میں اس کی اشد ضرورت تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی بی کی مدد کے بغیر وہ شخص ملک سے باہر نہیں جاسکتا تھا۔پولیس نوٹس ہر انٹر نیشنل اےئر پورٹ کو بھیجا جاچکا تھا، پولیس نے کین کو ملک نہ چھوڑنے کا حکم دیاتھا۔
اسی قسم کے ای میل انڈین مجاہدین کے نام سے ممبئی ٹرین حادثہ، اجمیرشریف، مکہ مسجد، جے پور، یوپی کورٹ سیریل بلاسٹ اور دہلی دھماکوں سے قبل بھی میڈیا کو موصول ہوئے، تاہم پولیس نے ان کی جڑ میں جھانکنا نہیں چاہا، اس کو ٹریس کرنے کی کوشش نہیں کی،جے پور بلاسٹ سے قبل ایسا ہی ایک ای میل انڈین مجاہدین کے نام سے آیا، جو غازی آباد صوبہ اتر پردیش کے مادھوکر مشرا کے کمپیوٹر سے بھیجا کیا گیاتھا، پولیس نے گرفتار کیا،لیکن اس کی بھی فورا رہائی ہوگئی۔ دہلی بلاسٹ سے متعلق ای میل کے سلسلے میں ممبئی پولیس نے دیپک پانڈے نام کے ایک شخص کوگرفتار کیا، تاہم اس کی بھی پراسرار رہائی نے سب کو چونکا دیا، جب کہ پولیس،آئی بی اور میڈیا کے پاس انڈین مجاہدین کے وجود کی بنیاد یا اس کے خلاف ان ای میل اور معصوم نوجوانوں کے پولیس کوان کی حراست کے دوران دیے گئے اقبالیہ بیانات کے علاوہ کوئی بھی ثبوت نہیں ہیں۔
آج دہشت گردی جو پوری طرح سے مسلم نوجوانوں سے جوڑدی گئی ہے ، ایک بڑے معمہ کی صورت اختیار کرچکی ہے، درج بالا واقعات کی روشنی میں یہ دعوی پورے رسوخ سے کیا جاسکتا ہے کہ آج پورے ملک میں مسلمانوں کو ہر حادثہ کے بعد سیاسی و سرکاری دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو جھوٹے اور بے بنیاد ثبوتوں کے ذریعے ایک لمبے عرصے کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے، جب کہ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ یہ تمام بم دھماکے ہندتو دہشت گردی کی سازشوں کا نتیجہ تھے، جن کو بچانے اور چھپانے کی غرض سے ہمارے ملک کی تفتیشی ایجنسیاں سطح تک پہنچنے سے ہی گریز کرتی رہی ہیں،آج ہمارے ملک میں پیدا ہونے والی تشویش کی صورت حال دن بہ دن ملک کی سالمیت و سیکولر ذہنیت کے لیے ناسور کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔
اس سے قبل بھی یہ تذکرہ کیا جاچکا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اگرچہ سست ہے، تاہم یہاں انصاف سے مایوس نہیں ہوا جاسکتا، ہماری قوم کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس ملک میں حاصل شدہ دستوری حقوق ، عدالتی نظام، قانونی معلومات کو سمجھنے اور ان سے متعلق معاملات و معلومات کی تمام تر ذمہ داریاں وکالت پیشہ افراد کے سر باندھ دیں اور پھر اس پیشہ کو اس کی اہمیت کے بقدر اہمیت نہ دی،آج ہماری قوم کے پاس چند ایک ہی وکیل ایماندار اور باصلاحیت ہیں، آج اچھے وکیل ہماری بنیادی ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ اسی کم علمی و ناواقفیت کا فائدہ ہماری حکومت اور اس کی ایجنسیاں اٹھارہی ہیں، اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے سماج اور معاشرے کے اندردستوری حقوق و قانونی معلومات کو عام کریں،اپنے علاقوں اور ضلع میں کم از کم ضلعی سطح پر اس قسم کے غیر دستوری و غیر قانونی حادثات کا سامنا کرنے کے لئے ضلعی یونٹ کا قیام عمل میں لائیں، علاقے کے اچھے وکیل اور حقوق انسانی کی خدمات میں مصروف تنظیموں سے روابط قائم کریں، ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں، جن وکیلوں کو خوف آگے بڑھنے سے روکتا ہے آپ ان کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کو یہ احساس دلائیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، یہ قوم کا مسئلہ ہے اور پوری قوم آپ کے ساتھ ہے، اس سلسلے میں اور ان مقاصد کو لے کر دیگر تنظیموں اور فرقوں کو قریب لائیں، اتحاد کی مثال پیدا کریں، طاقت کا اندازہ خود بہ خود ہوجائے گا۔
افراد کی قانونی تربیت کے لئے وقتا فوقتا سیمینار اور ورکشاپ کا معقول نظم کریں، آج ہمارے نوجوان سماجی مسائل کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہوئے نظر آتے ہیں، مادیت سماج اور قوم کی تہذیبی و اخلاقی روح کو فنا کرتی جارہی ہے، ان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں، حتی المقدور شہری حقوق کی پامالی کے واقعات کو روکنے کے لئے جدوجہد کریں، آپ کی اس جانب پیش رفت سماج میں ایک پریشر گروپ تیار کرنے میں کامیاب ہوگی، او ر اس جانب پیش قدمی سے سماج کا تعاون بھی آپ کو یقیناًحاصل ہوگا۔
گرفتاریوں کا جوغیر دستوری طریقہ کار آج رائج ہوتا جارہا ہے اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں، کیونکہ اس انداز سے گرفتار کرنا دستوری و قانونی نقطہ نظر سے اغوا ہے، نیز اس کا سامنا بھی اسی انداز سے کیا جانا چاہئے جس انداز سے اغوا کرنے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، قانون ہمیں اس کا حق دیتا ہے، اگر ہماری ان نام نہاد فرقہ پرست ایجنسیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ آپ اپنے حقوق سے واقف ہیں تو ان کی ہرگز یہ جرأت نہ ہو کہ کرناٹک کرائم برانچ۵؍ مئی کو برسامیلہ ضلع دربھنگہ بہار سے کسی کو اغوا کرکے لے جائے، یا جس طرح سے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے سادی وردی میں عرفان لانڈگے کو تھانے ممبئی سے پانچ اکتوبر کو اغوا کرکے ۱۰؍ اکتوبر کو جے پور سے کچھ ہتھیاروں کے ساتھ گرفتارکرنے کا ڈرامہ کیا۔
آج ہمارے ملک کی نام نہادپولیس اور خفیہ و تفتیشی ایجنسیوں کا معمول بن گیا ہے کہ وہ نوجوانوں کو ان کے گھر یا علاقے سے اغواکرتی ہیں ، چند روز کے بعد کسی اور مقام سے کچھ غیر قانونی اشیاء کے ساتھ گرفتاری کا اعلان کردیتی ہیں، جیسا کہ اعظم گڑھ کے حکیم طارق قاسمی ، خالدمجاہد یابہار کے کفیل صدیقی، مہاراشٹر کے عرفان لانڈگے جیسے ہزاروں بے گناہ مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہوتا دیکھاگیا ہے ، یہ سلسلہ تادم رکنے یا ٹھہرنے کا نام لیتے محسوس نہیں ہو رہا ہے، اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہم کو سماجی سطح پر ایک نظم قائم کرنا ہوگا جو اس قسم کے حادثات پر نظر رکھے ، نیز قانونی اقدامات صحیح وقت پر اورصحیح انداز میں کرے، مثلا؛
غیرقانونی گرفتاری کی صورت میں فوری طور پر اغوا کا ایف آئی آر متعلقہ پولیس اسٹیشن میں درج کرایا جائے نیز ایف آئی آر درج ہونے کے وقت وہاں موجود رہیں، دستخط کرنے سے پہلے ایک بار باریکی سے اس کو پڑھ لیں ، اگر کچھ چیزیں درج نہ ہوئی ہوں یا مبہم درج ہوں تو اس کی تصحیح کروائیں،ایف آئی آر کی ایک کاپی فوراََ حاصل کی جائے، اگر پولیس آپ کا ایف آئی آر درج نہ کرے تو فوری طور پر ٹیلی گرام یا سرکاری ڈاک خانے سے ہی شکایت نامہ/درخواست مقامی ضلعی اور صوبائی پولیس وانتظامیہ کے اعلی عہدیداران کو ارسال کریں نیز اس کے بعد عدالت کے ذریعے مجموعہ ضابطہ فوجداری ( کرمنل پروسیجر ایکٹ/سی آر پی سی) کی دفعہ۱۵۶ کی شق ۳کے تحت جج سے ایف آئی آر درج کرنے کے حکم کی درخواست کرسکتے ہیں، نیز عدالت میں فوری طور پر Hebeas Carpus کی درخواست ڈال دیں اگر پولیس نے فوری طور پر گرفتاری کا اعلان نہ کیا ہو، اور ان کا طریقہ گرفتاری پوری طرح غیر قانونی نیز اغوا کے انداز میں ہو۔
دستور ہند کی دفعہ ۲۲؍ میں صاف صاف الفاظ میں تحریر ہے کہ :146146 گرفتار شدہ شخص کو نہ صرف گرفتاری کی وجوہات بتائی جائیں بلکہ ان چیزوں سے بھی باخبر کیا جائے جن کی بنیاد پر متعلقہ شخص کو گرفتار کیا جارہاہو145145، اس دفعہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے سوفیا غلام محمد بنام اسٹیٹ آف مہاراشٹر اے آئی آر ۱۹۷۷ ء کے کیس میں نظیر بھی بنایا ہے۔
گرفتاری سے متعلق اہم نکات ۱۹۹۷ ء کے ایک مشہور کیس ڈی کے باسو بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال میں سیپریم کورٹ نے یوں بیان کئے ہیں:
گرفتار کرنے والے پولیس وردی میں ہوں، وردی پر ان کی شناخت ، نام، پوسٹ نمایاں ہو، اس اصول کو مجموعہ ضا بطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ ۴۲ بی میں شامل کیا گیاہے۔ گرفتاری کے وقت مقامی پولیس کی موجودگی شرط لازم ہے۔ اسی معاملہ کی ایک ہدایت یہ بھی ہے کہ گرفتاری کے وقت سی آر پی سی کے مطابق گرفتار کرنے والا پولیس آفیسر ایک اریسٹ میمو تیار کرے گا، جس پر گرفتار شدہ شخص کے ساتھ ساتھ اس کا کوئی رشتہ دار، دوست یا علاقے کا کوئی باعزت شخص دستخط کرے گا، جس کی ایک کاپی فراہم کی جائے گی۔ اسی سلسلے کی کچھ اور ہدایات ہیں جن کو سی آر پی سی کی دفعہ ۵۰ اے کے تحت درج کیا گیا ہے جس کے مطابق گرفتار شدہ شخص کہا ں ہے، اس کی خبر اس کے گھر والوں یا دوست جسے وہ کہے،دی جائے، نیز تھانہ میں موجود رجسٹر میں یہ درج کیا جائے کہ گرفتاری کی خبر گرفتار شدہ شخص کے فلاں رشتہ دار یا دوست کو دی گئی ہے۔ گرفتاری کے چوبیس گھنٹے کے اندراندر پولیس پر یہ لازم ہے کہ گرفتار شدہ شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔ گرفتار کرتے ہی طبی معائنہ کرانا بھی پولیس پر لازم ہے، جو ہر چوبیس گھنٹوں میں ایک بار ہونا لازمی ہے، جو آپ اپنے وکیل کے ذریعے کسی دیگر سرکاری ڈاکٹر سے بھی کرواسکتے ہیں، اگرآپ کوپولیس کی میڈیکل جانچ ایک رسم ہی معلوم ہوتی ہے،کیونکہ تجربات و شکایات کے مطابق متعینہ ڈاکٹر صرف دستخط کرنا ہی اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے، اگر گرفتار شدہ شخص کے ساتھ مارپیٹ یا ٹارچر کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو وکیل کے ذریعے فوری طور پر عدالت میں شکایت درج کرائیں۔
گرفتاری کی خبر ملتے ہی کسی اچھے اور باصلاحیت وکیل سے فوری طور پر رابطہ قائم کیا جانا چاہیے، کیونکہ تمام عدالتی کارروائیاں وکیل کے ذریعے ہی ممکن ہیں، وکیل کے ساتھ ساتھ گواہ کا چست رہنا بھی لازمی ہے، وکیل کو معلومات فراہم کرائیں، زیادہ سے زیادہ ثبوت یکجا کرنے کی کوشش کی جائے، گرفتاری کے وقت فوٹو اور ویڈیو بنانے کی پوری پوری کوشش کریں ، پولیس جس گاڑی سے آئے، جس حالت میں آئے وہ تمام چیزیں ریکارڈ کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں، کسی قسم کی لا قانونیت اور ظلم و استحصال کے خلاف اپنی شکایات قومی اور صوبائی کمیشن برائے حقوق انسانی اور قومی و صوبائی اقلیتی کمیشن کو ضرور بھیجیں ، ان کا مکمل پتہ ، فون نمبر اور ای میل پتہ انٹر نیٹ سے بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ شکایات سماج کا کوئی بھی شخص کہیں سے بھی درج کراسکتا ہے۔
ان تمام واقعات یا حادثات کو کسی فرد واحد کا معاملہ و مسئلہ نہ سمجھیں، ایک ذمہ دار شہری اور سماج کے اچھے رکن ہونے کی پوری پوری ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کریں، یہ کوشش انصاف دلانے کے لئے ہو، مجرم یا مظلوم کا درجہ دینے کا کام عدالتی نظام کا ہے، تاہم اس عدالتی نظام میں حق و انصاف تک پہنچانے میں عدالت و سماج کی مدد کرنا آپ کا، نیز سماج کے ہر ممبر کا بنیادی فریضہ ہے، مسلم قوم اگر دیگر طبقات واقوام کی جانب توجہ دینے کی طاقت اور حیثیت میں نہیں،اگرچہ خدائے تعالی نے اس قوم کو انسانیت کی رہنمائی کا مکلف بنایا ہے ، تو کم ازکم اپنی قوم اور سماج کی ٖفلاح و تحفظ کے سلسلے میں ایمانداری کا رویہ اختیار کریں۔ موجودہ حالات میں اس چیز کا اندازہ لگانا ناممکن محسوس ہوتا ہے کہ کب کون تماشہ بین ہوگا اور کون تماشہ۔
پورے ملک، بالخصوص مہاراشٹر، کرناٹک ، گجرات، راجستھان ، دہلی، اترپردیش اور بہارمیں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں، حفاظتی و تفتیشی ایجنسیاں اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت اور لاقانونیت کی وجہ سے سماج میں خوف وہراس کا ماحول پیدا کرنے میں اس حد تک کامیاب ہوگئی ہیں کہ ہمارا نوجوان تعلیم سے زیادہ تحفظ کے سلسلے میں فکرمند نظر آنے لگا ہے، یہ حالات اور اس کی نزاکت ہے، قوم کے نوجوان طبقہ کی طرف ہی اس کے حل کے لئے بھی نظریں لگی ہوئی ہیں، ان حالات میں جب کہ ہر شخص ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے، ہمارا فرقہ پرست میڈیا سماج کی ذہن سازی اپنے طور پر کرنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آرہا ہے، یہ ہیں وہ نازک حالات جن سے ہماری قوم و ملت دوچار ہے، نیز اس صورت حال سے قوم کو باعزت بچانا بھی ہمارا کام ہے، چیلنج مشکلات کے دور میں مشکلات کا سامنا کرنے کا نام ہے، نہ کہ مشکلات سے روگردانی کا۔
آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان تمام معصوم افراد کو حق و انصاف دلانے کے لئے منظم اقدامات کریں، انتہائی عدالتی فیصلہ آنے تک ملزم صرف ملزم ہوتا ہے، اس کے یا اس کے اہل خانہ کے اندر مجرم ہونے کا احساس پیدا نہ ہو، یہ ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے، حتی المقدور کوشش کریں کہ مشتبہ ملزمین کو قانونی امداد کی فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو، ان کے اہل خانہ کی مزاج پرسی کریں، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں،یہ مسئلہ کسی فرد واحد کا نہیں ہے، یہ مسئلہ تمام مسلمانوں کا ہے، یہ ایک سازش ہے اس مذہب اور اس کے ماننے والوں کے خلاف، یہ صورت حال صرف ہندوستان میں نہیں ہے، یہ چیلنج آج پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے ہے، یہ پوری قوم کی مذہبی ، سماجی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔
﴿مضمون نگاربھارت میں شہری حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم اے پی سی آر کے اسسٹنت کو آرڈینیٹر ہیں﴾
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔