اس
زمین پر پانی ایک معجزہ ہے جو ہائیڈروجن کے دو ایٹمس اور آکسیجن کے ایک ایٹم
کےباہم ملنے سے برپا ہواہے۔ رب کائنات نےجب اس زمین کی تخلیق فرمائی تو یہاں ایک
متعینہ مقدار میں پانی اتارا اور ہر زندہ شے پانی سے پیدا کی۔ اس سرزمین پر خشکی کے
مقابلےپانی کی مقدار ستر فیصد ہے اور انسانی جسم میں بھی اس کا یہی تناسب
برقراررکھا گیا ہے۔
سائنس
دانوں کاخیال ہے کہ پانی ایک ایسی دواکے مانند ہے جو نہ صرف انسانی بیماریوں کو
روکتاہے بلکہ اہم بیماریوں کا علاج بھی کرتا ہے۔ لورین آئینسلے کے مطابق اس سرزمین
پر اگر کوئی جادوئی شے ہے تو وہ پانی ہے۔ انسانی جسم میں دل جیسا اہم عضو اس وقت
سے دھڑکنا شروع ہوجاتاہے جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں محض بیس دن کا ہوتاہے
اور پھر اس کی آخری سانس تک دھڑکتا ہی رہتا ہے۔ دل کادھڑکنے کے لیے بار بار سکڑنا
اور پھیلنا اس پانی کی وجہ سے ممکن ہے جو اس کے خلیوں میں موجود ہوتاہے۔ آنتوں میں
نظام ہضم کے لیے پانی ہی ذمے دار ہے۔ غذا میں موجود تغدیات پانی میں حل ہوکر ہی
خون میں منتقل ہوپاتے ہیں جہاں سے وہ جسم کے ایک ایک خلیے میں پہنچ کر توانائی
فراہم کرتے ہیں۔
انسانی
جسم میں پانی کی کمی سے طرح طرح کے مسائل پیداہوتے ہیں۔ بالخصوص چھوٹےبچوں، بوڑھوں
یا لمبی بیماری میں مبتلا مریضوں میں پانی کی کمی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسی ہلاکت
خیزی کے تجربات عام طورپر سامنے آتےرہتے ہیں۔ بزرگوں، بچوں یا مریضوں کو اگر
غیرمعمولی طورپر الٹیاں یا دست آجائیں تو انھیںمسلسل پانی پلانے کامشورہ دیاجاتاہے
کیونکہ اگر یہ صورت حال دیر تک جاری رہ جائے تو اس کے مہلک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
ماہرین
کے مطابق بہت سی بیماریاں جیسے قبض، سردرد، خواتین میں حیض کی بے قاعدگی، وزن
میںاضافہ، بلڈپریشر، چکرآنا، جوڑوں کاورم اور درد، ذہنی خلفشار، کولسٹرول
میںاضافہ، آنکھوں کا جریان خون، اعضا کی کارکردگی کا معطل ہوجانا، انیمیا، سائنو
سائیٹس، قلبی عارضے یہاں تک کہ قولون، الیوفیکس، جگر، پھیپھڑوں اور رحم کے کینسر
کے لیے بھی پانی کی کمی ذمّے دار ہوتی ہے لیکن اگر اس کمی کی طرف توجہ دی جائے تو
بڑی حد تک ان بیماریوں سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔ پانی دماغی خلیوں کو قوت دیتا اور
یادداشت کو بڑھاتا ہے: دماغ کے گرے میٹر (Greymatter) میں ۸۵فیصد تک پانی ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا
ہے کہ اگر اس میںصرف دو فیصد کی کمی واقع ہوجائے تو یاد داشت متاثر ہونے لگتی ہے
اور انسانوں کی جوڑنے اور گھٹانے کی اہلیت کم ہوجاتی ہے۔ اگر جسم میں پانی کی کمی
نہ ہونے دی جائے تو دماغی صلاحیتوں کو نارمل رکھاجاسکتا ہے۔
پانی
قلب کی نارمل دھڑکن کیلئے ضروری
تجربات
سے پتا چلتاہے کہ جسم میں پانی کی کمی سے دل کی دھڑکن بے قاعدہ ہوجاتی ہے لیکن اگر
اس کمی کو بحال کردیاجائے تو دھڑکن نارمل ہوجاتی ہے۔
گردے
کی پتھری کیلئےپانی بے مثل دوا
حضرت
عیسیٰؑسے بھی ۴۰۰ سال قبل ہپّو کریٹس (Hippocrates) نے پیشاب کی نالی
میں پتھری کی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں پانی پینے کی سفارش کی
تھی۔ موجودہ سائنس کے مطابق بھی گردے کی پتھری سے حفاظت کا بہترین طریقہ کثیر
مقدار میں پانی کا استعمال ہے۔ گردے کی پتھری سے بچنے کے لیے عام طور سے جو کا
پانی تجویز کیاجاتا ہے۔
موٹاپے کا علاج پانی
زیادہ پانی پینے والے کھانا کم کھاتے ہیں
اور اس طرح قدرتی طورپر ان کاوزن قابو میں رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ لوگ جن کا
وزن بڑھا ہوا ہو وہ روزانہ پانچ سے ۶ گلاس
نیم گرم پانی پئیں اور پھر پانی کے کرشمے دیکھیں کہ وہ کس طرح ان کے بڑھے ہوئے وزن
کو کم کردیتا ہے۔
ماہرین
کے مطابق اگر صبح نہار منہ صرف دو گلاس تازہ پانی ہی پی لیاجائے تو وہ عام صحت کو
قائم رکھنے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ صبح اٹھنے کے بعد پیٹ خالی ہوتا ہے اس لیے پانی
کو جسم کے زہریلے مادے خارج کرنا آسان ہوتاہے اس کے علاوہ پانی خون کو پتلا کرنے
اور بدن کے اہم اعضا کو تقویت پہنچاکر انھیں چاق و چوبند رکھنے میںبھی مددگار ثابت
ہوتا ہے۔ اوپر بیان کی گئی بیماریوں کو روکنےمیں بھی پانی بہت اہم رول ادا کرتا
ہے۔اس سلسلے میں مسٹر آر جی گنگن وانی نے عوام کی بہبود کے خیال سے ’دکن کرانیکلس‘
نامی میگزین میں ’پانی سےمعجزاتی علاج‘ عنوان کے تحت ایک مضمون شائع کیاتھا جس میں
انھوںنے ’جاپان سکنیس ایسوسی ایشن‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاتھا کہ پانی کے ذریعے
بہت سی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ ان میں سردرد، ہائی بلڈپریشر، دمہ، نرخرے کی
جھلی کا ورم، انیمیا، عام فالج، موٹاپا، جوڑوں کا ورم اور درد، ناک کے جوف کی
سوجن، کھانسی، پھیپھڑوں کی دِق، جگر کی خرابی، پیشاب اور تناسلی امراض ، تیزابیت،
پیچش، کانچ نکلنا، قبض، ذیابیطس، امراض چشم، بے قاعدہ حیض، لیکوریا، حلق کا
ورم اور رحم و پستان کے کینسر جیسی بیماریاں شامل تھیں۔
اب سے
تقریباً ۲۵۰۰ سال پہلے کنفیوسیٹس نے کہاتھاکہ کسی بھی
جاندار کی صحت اس کے معدے کی صحت پر موقوف ہوتی ہے۔ اس بیان کی روشنی میں رمضان کے
روزے اللہ کا انتہائی کرم اور اس کی رحمت سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔ دیکھاجائے تو
صاف پانی جسم کے اندر پہنچ کر پوری طرح اس کی صفائی کردیتا ہے تاکہ نظام ہضم کی
کارکردگی بڑھ جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب پانی کے ذریعے قولون اور آنتوں کی
اندرونی جھلی دُھل کر صاف ہوجاتی ہے تو غذا میں موجود تغذیات کا خون میں انجذابی
عمل تیز ہوجاتاہے اور نتیجے میں جسم کے اندرصحت مند خون کا اضافہ ہوجاتاہے۔ ظاہر
ہے یہ صحت مند تازہ خون جسم کے جس حصے میں پہنچے گا وہاں کی بیماریوں اور عارضوں
کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
پانی
کے ذریعے علاج کا طریقہ یہ ہے کہ صبح اٹھنے کے فوراً بعد ۱ء۲۶ کلو یا
۱۲۶۰ملی لیٹر تازہ، صاف پانی پی لیاجائے۔
یہ کام منہ ہاتھ دھونے اور دانت صاف کرنے سے بھی پہلے کیاجانا چاہیے۔ اگلے
پینتالیس منٹ تک کچھ بھی کھایا پیا نہ جائے۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ رات کو
سونے سے پہلے جسم کو متحرک کرنے والی کوئی شے یا مشروب کااستعمال نہ کیاجائے۔ ایک
دفعہ میں اس قدر پانی پی لینا یقیناً ایک مشکل کام ہے لیکن چند روز کی کوشش اسے
آسان بنادے گی۔ ایک بار میںجس قدر بھی پانی آسانی سے پیاجاسکے پی لیں اور اس کے
بعد یا تو لیٹ جائیں یا پھر ایک جگہ کھڑے ہوکر چلنے کی کوشش کریں۔ تھوڑا وقفہ دے
کر باقی پانی بھی پی لیں۔ چند روز ضرور دشواری محسوس ہوگی لیکن بعدمیں یہ کام آسان
ہوجائے گا۔ جوڑوں کی سوجن یا درد میں مبتلا مریضوں کو پہلے ہفتے میں پانی پینے کا
یہ عمل دن میں تین باردہرانا چاہیے لیکن بعد میں صرف ایک ہی بار پانی پینا کافی
ہوگا۔ پانی سے علاج کے دوران کھانے کے دو گھنٹے بعد پانی پینا چاہیے۔ ساتھ ہی
مشروبات وغیرہ سے بھی مکمل طورپر پرہیز کرنا چاہیے۔ تجربات شاہد ہیں کہ پانی کے
ذریعے حسب ذیل بیماریاں ان کے سامنے دی گئی مدت میں دور ہوسکتی ہیں۔
۱۔ ہائی بلڈپریشر-ایک مہینہ
۲۔قبض-ایک یا دودن
۳۔ ذیابیطس-ایک سے دو ہفتے
۴۔کینسر -ایک مہینہ
۵۔ پھیپھڑوں کی دق۳ سے ۹ مہینے
اس
طریق علاج کو اپنانے والے ایک نوجوان کا کہناتھا کہ پہلے روز پانی پینے کے
بعد اُسے تین بار پیشاب کے لیے جانا پڑا جس کے بعد اُسے ناشتہ انتہائی ذائقہ دار
اور راحت بخش محسوس ہوا۔ دوسرے دن اس کے اجابت کے مسائل حل ہوگئے اور تین مہینوںکے
اندر اس کا وزن بڑھ گیا۔ اس نے بتایاکہ اس علاج کے بعد سے اب تک وہ کبھی بیمار
نہیں ہوا یہاں تک کہ معمولی نزلہ اور کھانسی تک اسے نہیں ہوئی۔
علاج
کی غرض سے پانی کااستعمال ’’واٹر ہائیڈروتھیراپی‘‘ (Water or Hydro - Therapy)کہلاتا ہے۔ پانی پی کر بیماریوں کا علاج یا
روک تھام واٹر تھیراپی کا صرف ایک پہلو ہےجب کہ دوسرا ایک پہلو اور بھی ہے جس میں
پانی کو جسم کے باہر سے استعمال کیاجاتا ہے۔
عام گرم پانی کے ٹب میں لیٹنے یا پھر گندھک
کے چشموں سے نکلنے والے گرم پانی میں خود کو ڈبونے سے جو لطف اور راحت حاصل ہوتی
ہے وہ تو ہے ہی تاہم اس عمل کے دوران نہ صرف جسم کے بہت سے درد رفع ہوجاتے ہیں
بلکہ جسمانی حرکت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور بعض بیماریاں تک دور ہوجاتی ہیں۔
انسانی جسم جیسے ہی گرم پانی کے اندر جاتاہے، اسی لمحے پانی کے فوائد حاصل ہونے
شروع ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے اسے گرمی کا احساس ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی پانی اس کے
جسم کو اوپر اچھال کر ہلکا کردیتا ہے اور وہ کسی قدر زمینی کشش سے آزاد ہوجاتا ہے
اور پھر ان کے اثر سے جسم کا دورانی نظام متاثر ہونے لگتا ہے۔
گرم پانی جسم کو گرم کردیتاہے۔ یہ عمل
اوپری جلد سے شروع ہوتا ہے۔ فورا ہی دل اپنی کارکردگی تیز کردیتاہے اور وہ
زیادہ قوت سے خون پمپ کرتا ہے تاکہ جسم کی اوپری شریانوں میں پہنچ کر بڑھی ہوئی
حرارت کو نارمل کرنے کا عمل شروع کرسکے۔ اوپری شریانوں میں تیزی سے خون کا دوران
وقتی طورپر خون کا دبائو بڑھا دیتا ہے۔ گرم خون کے زیراثر تیزی سے پسینہ آتا ہے جو
عام حالت میں جلد سے نکل کر بخارات کی شکل میں فضا میں تحلیل ہونے لگتا ہے جس کے
ساتھ ہی جسمانی درجہ حرارت نارمل ہونے لگتا ہے۔ لیکن گرم پانی میں ڈوبے ہوئے جسم
سے پسینہ نہیں نکل پاتا اور اوپری شریانوں کا خون جب جسم کے دوسرے حصوں میں گہرائی
تک پہنچتا ہے تب وہ پورے جسم کو مزید گرم کردیتا ہے۔ اگر گرم پانی کا درجہ حرارت ۱۰۴ ڈگری فارن ہائیٹ تھا تو ۲۰ منٹ کے اندر جسم کا مجموعی درجۂ حرارت ۱۰۲ ڈگری فارن ہائیٹ ہوجاتا ہے۔
گرم
پانی میں لیٹنے والے تصدیق کریں گے کہ کچھ دیر بعد ہی بے حد راحت اور سکون کا
احساس ہونے لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرم خون جسم کی شریانوں میںلگاتار گردش
کرتا رہتا ہے اور اس کی بڑھی حرارت شریانوں کو پھیلاکر چوڑا کردیتی ہے جس کے سبب
دوران خون زیادہ آسانی اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہونے لگتا ہے اس کی وجہ سے بڑھا ہوا
بلڈ پریشر ایک بار پھر نیچے آجاتا ہے۔
وجہ
چاہے کچھ بھی ہو لیکن اگر جسم کا کوئی عضلہ کبھی کسی تنائو کا شکار ہوجائے تو وہ
اپنےاندر موجود نسوں اور رگوں پر بھی اثرانداز ہوتاہے۔ رگوں کے اندر دوران خون میں
رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور وہ عضلے کو اتنی مقدار میں آکسیجن مہیا کرنے میں ناکام
ہوتاہے جتنی کہ مہیا کرنا چاہیے جس سے عضلے میں گھٹن اور درد کی شکایت میں اضافہ
ہوجاتاہے اور اس طرح عضلے میں تکلیف اور ناخوشگواری کااحساس بڑھ جاتا ہے لیکن جیسے
ہی وہ عضلہ گرم پانی کے اندر جاتاہے الٹا عمل شروع ہوجاتاہے اور اسے راحت اور
طمانیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ گرم پانی رگوں کو کھولتا ہے اور ان میں رکاوٹ دور ہونے
سے دوران خون تیز ہوجاتاہےجس کے زیرِ اثر عضلے کو آکسیجن کی خاطر خواہ فراہمی بحال
ہوجاتی ہے۔ نسوں پر دبائو جیسے جیسے کم ہوتاہے ویسے ویسے درد اور تکلیف میں افاقہ
ہونے لگتاہے اور عضلےمیں راحت اور خوشگواری کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ اگر طبی زبان
میں بات کریں تو جب کوئی عضلہ تنائو سے آزاد ہوتاہے تو اس کے مختلف ریشوں کے
درمیان فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس طرح خون کی رگوں کو خون کی ضروری مقدار وہاں
پہنچانے میں بالکل وقت نہیں ہوتی۔ جسمانی تحول کے نتیجے میں عضلے کے اندر جو بھی
زہریلے فاضل مادّے جیسے لیکٹک ایسڈ وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں خون انھیں باہر نکال کر
ان کی جگہ تازہ آکسیجن اورغذا سے حاصل کیے ہوئے تغذیات وہاں پہنچادیتا ہے جس کے
ساتھ ہی عضلہ راحت اور خوشگواری کا احساس کرنے لگتا ہے۔
ماہرین
کا خیال ہے کہ اگر گرم پانی میں جسم کو ڈبونے کے ساتھ ساتھ عضلات کی تھوڑی ورزش
اور مساج بھی کرلیاجائے تو نتائج اور بھی بہتر اور دیرپا ہوتے ہیں۔ واٹر تھیراپی
کا یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے بہت کارآمد ہے جو عموماً ایک جگہ بیٹھ کر لکھنے
کا یا پھر کمپیوٹر وغیرہ پر کام کرتے ہیں اور جس کے باعث ان کی گردن، کمر یا
ہاتھوں پیروں کے حصوں میں عضلات اکڑجاتے ہیں۔
بشکریہ : سہ روزہ دعوت دہلی
تحریر : شمس الاسلام فاروقی
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔