ان دنوں جبکہ بھارت میں عام انتخابات کی گہما گہمی پورے شباب پر ہے ملک میں انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کی ترسیل پر روک لگانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے، اور یہ مہم اب فیصلہ کن مر حلے میں داخل ہو چکی ہے نیز سپریم کورٹ کا رخ بھی اس معاملے میں سخت تر ہو گیا ہے، سپریم کورٹ نے یکم اپریل 2014 کو جاری اپنے ایک حکم نامے میں فحش ویب سائٹس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔
درخواست گزار ایڈوکیٹ کمل واسوانی نے عدالت سے فحش ویب سائٹس پر مکمل پابندی لگانے مطالبہ کرتے ہوئے فحش ویب سائٹس کو سماج میں بڑھتے جرائم کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے اور اسے خواتین اور بچوں کے ساتھ پیش آ نے والے جرائم کے واقعات کی جڑ بتایا ہے۔ جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس جے چیلامیشور کی بنچ نے معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے اس پورے معاملے پر مرکز سے جواب طلب کیا ہے۔ درخواست گزار نے اپنی دلیل میں کورٹ کے سامنے ایک جائزہ پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ تیزی سے پیش آنے والے واقعات کے ملزمین نے پولیس کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ جرم کے ارتکاب سے قبل انہوں نے فحش ویڈیوز اور ویب سائٹس کا استعمال کیا تھا اب ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انٹر نیٹ پر آسانی سے دستیاب یہ مواد نوجوان نسل کو جنسی جرائم کے دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ کمل واسوانی کو یہ عرضی داخل کیے ایک برس ہو چکے ہیں ، پہلی بار اپریل 2013 میں انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے یہ دوسری بار حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
خیال رہے کہ یہ اپنی نوعیت کی واحد پٹیشن نہیں ہے بلکہ اس سے قبل اور بعد میں بھی اس برائی کے ازالے کیلئے مفاد عامہ کی ایسی عرضیاں داخل ہوتی رہی ہیں۔ کمل واسوانی کے علاوہ عرضی گزار جین چریا وجے اورر تن سندر سرجی سمیت دیگر تین افراد نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ انٹرنیٹ پر فحش مواد پر پابندی لگانے کے لئے آئی ٹی قانون میں ضروری ترمیمات کی جائیں۔ پٹیشن داخل کرنے والوں نے تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی دو تہائی آبادی 35 برس کی عمر والوں کی ہے، یہی لوگ ملک کے روشن مستقبل ہیں جنہیں انٹرنیٹ پر جاری فحاشی کے ذریعے تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ ان کے اخلاق وکردار اور فکر کو بری طرح مسخ کیا جارہا ہے۔ لہذا ملک میں فحاشی کے کلچر پر روک لگانے کے اقدامات کئے جائیں۔
لہذا ان عرضیوں کا نوٹس لیتے ہوئے مفادعامہ کی درخواستوں پر غوروخوض کرنے والی راجیہ سبھا کی کمیٹی کے چیئرمین بھگت سنگھ کوشیاری نے انٹرنیٹ پر جاری فحش تصاویر اور ویڈیوز کی اشاعت پر روک لگانے کے طور طریقوں پر ملک کے باشعور حلقوں سے تجاویز اور مشورے طلب کیا۔ جس پر جماعت اسلامی ہند سمیت ملک کی کئی مذہبی و سماجی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر دستخطی مہم چلا کرایک سروے فارم کے ذریعہ کمیٹی تک پہنچانے کا کام کیا تھا۔ لیکن پابندی عائد کرنے کا عمل فی الحال کس مرحلے میں ہے یہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اسی طرح کی ایک کوشش ممبئی کے شہر کارپوریشن کی اہم رکن ریتوتاوڑے بھی کر چکی ہیں اور ممبئی شہر کارپوریشن نے ان کی اس تجویز کو 16 مئی 2013 کو اکثریت سے منظور بھی کر لیا تھا۔ محترمہ تاوڑے نے اپنی تجویز میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ کپڑوں کے شو روم میں لکڑی یا پلاسٹک کے پتلوں میں بکنی کی نمائش پر پابندی لگائی جائے کیونکہ ایسے کپڑوں کی نمائش سے نوجوان نسل کے ذہن پراگندہ ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس تجویز کی فوری مخالفت مہاراشٹرکی خاتون جرنلسٹ پرتیش نندی نے ہی شروع کر دی۔ جبکہ کارپوریشن کے چیئرمین سنیل پربھو نے ریتو تاوڑے کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ممبئی میونسپل کارپوریشن کو کارروائی حکم دیا تھا۔ اب اِس تجویز کو پاس ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں، کارروائی کے اثرات کیا ہوئے ہیں اس کا اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پرتیش نندی کو جواب دیتے ہوئے ایک دوسری خاتون جرنلسٹ ویشنا رائے نے سخت رخ اپناتے ہوئے کہا کہ آزادی کی کوئی حد ضرور ہونی چاہئے اور پر زور مطالبہ کیا کہ نئی نسل کو تباہی سے بچانے کے لئے ایسے مناظر کو دیکھنے اور اسے اپ لوڈ کرنے پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یکم اپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اس نوٹس پر ہر خبر پر نظر رکھنے کا دعوی کر نے والے کارپو ریٹ میڈیا کی نظر اس خبر پر نہیں پڑی جبکہ کم و بیش سبھی میڈیا ادارں کے لیگل رپورٹر سپر یم کورٹ کے احاطے میں موجود ہوتے ہیںلیکن اس خبر کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کمل واسوانی اور ان جیسے دوسرے لوگ جو اس برائی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور ہر ممکن تعاون دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف کمل واسوانی، جین چریا وجے، رتن سندر سرجی، ریتو تاوڑے اور ویشنا رائے کا ہی نہیں ہے عرضی گزاروں کی فہرست جتنی طویل ہوگی مثبت نتائج کی امید مضبوط ہو گی کیونکہ جمہوریت میں اکڑیت کی رائے کے پیش نظر فیصلے لیے جاتے ہیں۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔