حامد کرزئی کے تیور ان دنوں کافی بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں، گزشتہ پندرہ روز کے دوران
ان کی جانب سے کئی بیانات آئے ہیں جن میں امریکہ کی مخالفت اور افغان عوام خصوصاً
طالبان سے ہمدردی ظاہر ہوتی ہے ۔ انھوں نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ اپنی افواج مقررہ
مدت کے اندر واپس بلا لے ,افغان
سیکورٹی فورسیز ملک کی سلامتی کے لئے کافی ہیں۔ ایک موقع پر انھوں نے یہاں تک کہہ دیا
کہ القاعدہ حقیقت سے زیادہ فسانہ ہے اورامریکی جنگ افغانستان کے تحفظ کے لئے نہیں
تھی۔ یہ بات انھوں نے امریکہ کے معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ سے انٹرویو میں کہی ہے۔ حامد
کرزئی کہتے ہیں کہ افغان جنگ یوروپی ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لئے لڑی گئی، اب تک
جن لوگوں کو گرفتار کیاگیا ہے ان میں زیادہ تر لوگ بے قصور ہیں۔ جوں جوں ان کی مدت
کارختم ہونے کا وقت قریب آرہا ہے امریکہ کے خلاف ان کا لہجہ سخت ترہوتا جارہا ہے
۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نوازی کے طفیل میں مسلسل دو میقات تک صدر کے عہدے
پر بنے رہنے کے بعد اچانک ان کے موقف میں یہ نمایاں تبدیلی کیوں پیدا ہوگئی، اسے امریکہ
کی ناشکری کا نام دیں یا پھر ضمیر کی آواز کہیں، ان کا یہ طرزعمل کس تبدیلی کا پیش
خیمہ ہے؟ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ چونکہ اب افغان آئین کے مطابق ان کے لئے تیسری
بار صدر بننے کا راستہ بند ہوگیا ہے اس لئے اب وہ افغان عوام خصوصاً طالبان کی ہمدردیاں
حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ طالبان کے تئیں نرم رویہ اور امریکہ مخالف بیانات کے
سہارے وہ قومی ہیرو بننے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ لیکن ماضی پرنظر ڈالیں تو ان کی امریکہ
نوازی اور عوام مخالف بیانات کی طویل فہرست ہے۔ جدید افغانستان کے قیام کے لئے وہ امریکہ
کی شراکت داری اور تعاون کو ضروری قرار دیتے رہے ہیں۔
وہیں دوسری طرف امریکہ
نے ان کے اس رویے کو حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے اور اسے احسان
فراموشی سے تعبیرکیا ہے ، امریکہ نے کہا ہے کہ افغان جنگ کے دوران اس کے دو ہزار فوجی
مارے گئے اور چھ سو ارب امریکی ڈالر سے زائد خرچ ہوئے ہیں۔ امریکہ نے حامد کرزئی کے
رویے پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ بارہ سال کی جنگ کے بعد
ایک حلیف اب حریف بن گیا ۔
کہا جارہا ہے کہ
امریکہ اور حامد کرزئی کے درمیان یہ تلخی اس وقت شروع ہوئی جب حامد کرزئی نے ایک سلامتی
سمجھوتے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کے تحت امریکہ 2014 کے بعد بھی افغانستان میں اپنی فوجی کارروائی
جاری رکھنا چاہتا تھا۔ جبکہ وہ 2014 تک مکمل انخلاء کا اعلان کرچکا ہے، حامد کرزئی نے
کہا ہےکہ زیادہ بہتر ہوگا کہ امریکہ نئے صدر سے یہ معاہدہ کرے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ
انٹرویو کے دوران حامد کرزئی کئی بار جذباتی ہوگئے۔ انھوںنے افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ افغان عوام
کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ امریکہ نے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ہمارے ملک کو جنگ کے دلدل
میں دھکیل دیا۔حامد کرزئی کا تازہ ترین موقف افغانستان کے مستقبل پر کیااثر ڈالے گا
یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا کیونکہ امریکہ اب حامد کرزئی کے بڑے بھائی کو ان کی جگہ
عطا کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے منصوبہ سازی کررہا ہے۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔