حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 27 مارچ، 2014

شنڈے جی ! آپکے سرکولر کا کیا ہوا ؟


عام انتخابات سے عین قبل ایک با رپھر ملک کی فضا کو دہشت زدہ کرنے کا کام شروع ہوگیا ہے۔ بہانہ وہی پرانا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لئے واحد امیدوارنریندر مودی کی جان کو خطرہ ہے۔ اِس سے قبل 2004 میں عشرت جہاں اور اس کے چار ساتھیوں کو بھی فرضی انکاونٹر میں ماردیا گیا تھا، کہا گیا تھا کہ یہ لوگ نریندر مودی کو ختم کرنے کے ارادے سے آئے تھے لیکن تفتیش کے بعد پتہ یہ چلاکہ یہ فرضی انکاونٹر تھا۔ وزیرداخلہ سشیل کمار شندے جنھوں نے ایک ماہ قبل ملک کی سبھی ریاستوں کو یہ سرکلر جاری کرکے یہ کہاتھا کہ اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کو بے جا پریشان نہ کیا جائے، وہ 23مارچ کو میڈیا کے سامنے کافی مطمئن نظر آئے اور سیکورٹی فورسز کی اس بات کے لیے تعریف کی کہ سیکورٹی فورسز کی مستعدی کی وجہ سے ممکنہ دہشت گردانہ واقعے پر قابو پالیا گیا۔
تازہ واقعے میں پہلے راجستھان کے جودھپور سے چارمسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاگیا ہے ، جب کہ عمار یاسر اور اس کے ایک ساتھی کو راجدھانی دہلی کے جامعہ نگر سے دہلی اسپیشل سیل نے 23مارچ کو اٹھالیا تھا۔ جن کو دیر رات عوام کے زبردست احتجاج کے نتیجے میں چھوڑدیا۔ لیکن اگلے ہی روز گجرات کے عالم دین ، تحسین اختر اور برکت علی کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ بی جے پی کے وزیراعظم کے امیدوار نریندر مودی کو فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، ہماری پولیس نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ دہلی اسپیشل سیل کے اے سی پی منیشی چندرا کی پریس کانفرنس کی خبریں مسلسل ٹی وی چینلوں پر دکھائی جارہی تھیں۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ 23 مارچ کو صبح دس بجے سے جامعہ نگر تھانے میں موجود این ڈی ٹی وی اور انڈیا ٹی وی کے رپورٹروں کی اسٹوری دیر رات تک نظر نہیں آئی۔وہ میڈیا جو پل پل کی خبریں دینے کا دعویٰ کرتا ہے اسے اس خبر میں کوئی دل چسپی نہیں ہوئی۔
 دراصل آر ایس ایس اس وقت اقتدار کے حصول کی میں اندھی ہو چکی ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے ملک کے مسلمانوں کو پہلے مین اسٹریم میں لانے کا لالچ دیا اور جب اس سے کام بنتا نطر نہیں آیا تو اب دہشت زدہ کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ” پہلے لالچ پھر دھمکی “کے بین الاقوامی فارمولے کو آزما رہی ہے ، اورملک کی فضا کو زہر آلود کر نے پر آمادہ ہے۔
اس لیے سنجیدہ حلقوں کی جانب یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ انتخابات سے عین قبل ملک میں دہشت کی فضا قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ وہ میڈیا جو پولیس کے ذریعے فراہم کی گئی معلومات ہی کو من و عن اپنی اسکرپٹ میں کیوں تبدیل کرلیتا ہے؟ یہ میڈیا عدالت کے فیصلے سے قبل کسی ملزم کو مجرم ٹھہرانے کا جواز کہاں سے حاصل کرلیتا ہے؟ جب لوگوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے الزام میں گرفتار کیا جاتاہے تو اس وقت شفاف طریقے سے پوری کارروائی انجام کیوں نہیں دی جاتی؟
مسلم نوجوانوں کی پے در پے ہونے والی گرفتاریوں اور وزیر داخلہ تازہ بیانات کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک طرف تو مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے فرضی اطمینان دلانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہیں دوسری جانب بھگوا حلقوں کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو ملک کے ماحول کو دہشت زدہ کرکے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں، لہٰذا یہ بہت نازک گھڑی ہے۔ مسلم عوام اور خواص کو حکمت و دانائی اور اتحاد کا عملی ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔فصیح محمود پر تہاڑ جیل میں قاتلانہ حملہ اور گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ کو دی جانے والی دھمکیوں کے بعد یہ تازہ گرفتاریاں اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ فرقہ پرست قوتوں کے حوصلے بلند ہیں انٹلی جینس ایجنسیوں اورسکیوریٹی ایجنسیوں میں بیٹھے بھگو بریگیڈ کے کارندے پوری طرح سرگرم ہو گئے ہیں وہ ہر قیمت پر مودی کو اقتدار تک پہنچا نے کی جی توڑکوشش میں مصروف ہیں۔ اور خود کو سیکولر کہنے والی قوتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ؟سب سے زیادہ حیرانی کی با ت تویہ ہے کہ وہ مسلم تنظیمیں جو آئے دن سیاسی گلیاروں میں مسلم مسائل پر ہائی پروفائل ملاقاتیں کرتی رہتی ہیں ان کے بھی نمائندےایک دم خاموش ہیں پریس ریلیز کے ذریعے مذمتی بیانات اور قرار دادیں پاس کر کے کام چلا رہی ہیں.

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔