گزشتہ دنوں میڈیا میں یہ خبر آئی کہ کیرالا پولیس نے
جھارکھنڈ کے 123 بچوں کو
انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ سے آزاد کراکے انہیں جھارکھنڈ پہنچا دیا ہے۔
گزشتہ برس بھی اسی طرح کی اسمگلنگ کا ایک معاملہ ظاہر ہوا تھا راجستھان کے بھرت
پور سے بہار کے 184 کمسن بچوں کو
بچہ مزدوری سے آزاد کرانے کے بعد انہیں پٹنہ پہنچادیاگیا تھا۔ آئے دن میڈیا میں
بچوں کے غائب ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں
بچوں کی اسمگلنگ کرنے والے آٹھ سوگروہ سرگرم ہیں۔ یہ ریکارڈ سی بی آئی نے جاری
کیا ہے۔ تازہ اعداد وشمار کے مطابق اوسطاً ہر گھٹنے ایک بچہ کے غائب ہوتا
ہے۔ اور 24 گھنٹوں میں 24 بچے اپنے والدین سے دور ہوجاتے ہیں۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے
مطابق ہندوستان میں تقریباً 44ہزار بچے ہر برس لاپتہ ہوجاتے ہیں اور ان میں سے
بمشکل تمام گیارہ ہزار بچے ہی گھر واپس ہوتے ہیں ہندوستان میں انسانوں کی اسمگلنگ
کے واقعات پر اقوام متحدہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں ہندوستان کو انسانی اسمگلنگ
کا بڑا بازار قرار دیا ہے۔ جس میں دارالحکومت دہلی بچوں کی اسمگلنگ
میں سرفہرست ہے۔ یہاں ملک بھر سے بچوں اور خواتین کو لاکر آس پاس کے علاقوں اور
دوسرے ملکوں میں فروخت کردیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال2009 اور 2011 کے
درمیان تقریباً ایک لاکھ77ہزار 660بچے ملک بھر میں
لاپتہ ہوئے۔ ان میں64 فیصد
بالغ لڑکیاں ہیں۔ 2011
اور 2012 میں غیر سرکاری تنظیموں کی
مدد سے 1532 بچوں
کو اسمگلنگ کرنے والے گروہوں سے بچایا گیا ہے۔ یہ تعداد غائب ہونے والے بچوں کی
تعداد سے تناسب کے اعتبار سے کافی کم ہے۔ متذکرہ بالا رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ
صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لئے ملک میں موثر
قانون بھی ہے لیکن قانون کے نفاذ میں اتنی کمزوریاں ہیں کہ ملزمین قانون کی گرفت
سے نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ موجودہ قانون میں اس قدر خامیاں ہیں کہ انسانی
اسمگلنگ پر مکمل روک لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ بعض اوقات تو اِسی طرح کے واقعات
میں کون سی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اِس کی پوری جانکاری پولیس کو بھی نہیں
ہوتی۔
وزارت داخلہ کے تحت چلنے والے اداروں میں انسانوں کی
اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے 225یونٹ کام کررہی ہیں لیکن حالات دن بدن بدتر ہی ہوتے
جارہے ہیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے 2011سے اب تک ملک بھر میں چار ہزار سے زائد بچاؤ مہم
چلائی جاچکی ہیں۔ جس میں صرف تیرہ ہزار742 کوہی بچایاجاسکا ہے۔ حالات کے تجزے سے یہ بات ظاہر
ہوتی ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود سرکار یں اِس لعنت سے نمٹنے می پوری طرح
ناکام رہی ہیں۔ درجنوں اداروں کے قیام کے باوجود بچوں کی اسمگلنگ کا یہ
سلسلہ دراز ہوتاجارہا ہے جب کہ ملک میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنےکے لئے باقاعدہ
ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تمام کوششیں مضبوط قوت ارادی نہ ہونے کے سبب نتیجے
کے لحاظ سے کوری ہیں۔ ایجنسیوں کے مابین رابطے کی بے حد کمی ہے۔ جب تک قانون
کے نفاذ کو یقینی بنانے اور کمزوریوں کو دُور کرنے پر زور نہیں دیاجاجائے گا۔
حالات کی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ مرکزکی نئی سرکار کو اس جانب خصوصی توجہ
دینے کی ضرورت ہے کہ ہر برس سیکڑوں نونہانوں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے کیا
اقدامات کئے جائیں۔
نوٹ:-اس رپورٹ پر براہ کرم نیچے دیے گئے باکس میں اپنی رائے دیں
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔