انجینئر محمد
سلیم:-
حالیہ پارلیمانی
انتخابات اور اس کے نتائج کے بعد ملک میں نئی مرکزی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے۔
بدلے ہوئے سیاسی حالات میں ملک کے ایک طبقے میں اُمید اور جوش کے جذبات ہیں وہیں ایک
بہت بڑے طبقے میں ملک کے مستقبل کے بارے میں اُمیدوں سے کہیں زیادہ اندیشے پائے جاتے
ہیں۔ خصوصاً جمہوری اور انسانی حقوق اور قدروں کے لےے کام کرنے والے افراد اور تنظیمیں
اور مذہبی اقلیتیں خاص طور پر مسلمان اور عیسائی ۔ مسلمانوں میں اس تبدیلی سے کچھ صدمہ
اور مایوسی کی کیفیت جو ایک فطری بات تھی ، اب بھی پایا جاتا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اس میں کمی آرہی ہے۔ مسلمانوں کی اس کیفیت کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہی کچھ
واقع ہوگیا جسے وہ ہر قیمت پر روکناچاہتے تھے اور اسے روکنے کی ممکنہ کوششیں مسلمانوں
نے بھی کیں مگر نتائج ہماری خواہش اور توقع کے خلاف آئے۔ گزشتہ ایک ماہ سے برابر تجزیہ
آرہے ہیں اور ان نتائج کے اسباب اور عوامل اور ان کے مختلف پہلو بھی ہمارے سامنے آرہے
ہیں۔ اب ہم کو تجزیہ سے آگے بڑھ کر اس پر غور کرنا چاہےے کہ آگے کیا کیا ہوسکتا ہے۔
اس کے اچھے اور خراب پہلو کیا ہوسکتے ہیں، ملک کس رخ پر جائے گا، سماج میں کیا اور
تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں اور ان حالات کو صحیح رخ دینے میں ہمارا رول کس طرح موثر
ہوسکتاہے؟
ان حالات میں
یہ بات ٹھیک سے سمجھنے کی ہے کہ یہ انتخابات کوئی حق اور باطل کی جنگ جیسے نہیں تھے
اور نہ ہی فریقین میں کوئی ایسا تھا جو حق پر ہو اور ہم اس کو کامیاب بنانا چاہتے ہوں۔
باطل قوتوں میں اقتدار کے لےے آپسی کشمکش تھی اور ہم چاہتے تھے کہ ان میں سے اس ملک
کے لےے اور خصوصاً مسلمانوں کے لےے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ وہ ملک می مرکزی حکومت نہ
بنا پائے۔ ہماری خواہش اور کوشش کے باوجود نتائج ہماری توقع کے خلاف آئے۔ اللہ کا فیصلہ
اور اس کی مشیت ہے، ہم نہیں جانتے اس میں یہ خیر کا کون سا پہلو چھپا ہوا ہے۔ وہ وقت
آنے پر اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے ظاہر فرما´ے گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا
ہے:
”
ہوسکتا ہے ایک چیز تمھیں ناگوار ہو اور وہی تمھارے لےے بہتر ہو اور ہوسکتاہے ایک چیز
تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لےے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔“ (سورہ البقرہ،
آیت 216)
اس تبدیلی
کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کیا مقصود ہے یہ اسی کے علم میں ہے لیکن یہ ہمارا ایمان اور
یقین ہے کہ جوکچھ ہورہا ہے اس کے اس منصوبے کے تحت ہی ہورہا ہے جس میں آخر کار غلبہ
اسی گروہ کو حاصل ہوگا جو متقی ہے۔ اگر عارضی طور پر کچھ آزمایشیں بھی آتی ہیں تو بھی
وہ ہم کو اس بڑی ذمہ داری کو سنبھالنے کے لائق بنانے ہے کی لےے ہوگی۔ اور ہم کو یقین
ہے اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اسکی طاقت برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں
ڈالتا۔ ان عارضی سیاسی تبدیلیوں سے پریشان اور مایوس ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے
اور مایوسی کے لےے تو اسلام مین کوئی جگہ نہیں ہے۔ مومن تو ہر حال میں کامیاب ہے، چاہے
حالات اس کی پسند کے مطابق ہوںیا اس کے خلاف۔ پہلی حالت میں اللہ کا شکر ادا کرکے اس
کی رضا حاصل کی اور دوسری حالت میں صبر کا دامن مضبوطی سے تھام کر کامیابی کے راستے
کی جانب پیش قدمی کی جائے۔
انتخابات کے
ان نتائج کو ظاہری اسباب کی روشنی میں اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو جو بات سمجھ میں
آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان انتخابات میں فرقہ پرست اور فسطائی قوتیں اور سرمایہ دارانہ
استعمرای قوتیں دونوں نے مل کر اپنے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لےے ایک دوسرے کا ساتھ
دیا اور اب یہ دونوں طاقتیں پوری کوشش کریں گی کہ اپنے اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک
پہنچائے۔ دوسری جانب میڈیا کا غیر معمولی رول در اصل کارپوریٹ (Corporate) دنیا ہی کا اصل رول تھا۔ تیسرا بڑا سبب بر سر اقتدار UPA کے خلاف مختلف وجوہات کی بنا پر ناراضگی اور اس کو
میڈیا کے ذریعہ اور زیادہ بڑھا چڑھا کر پےش کیا گیا۔ خاص طور پر مسلمانوں میں UPA کی خلاف ناراضگی اس وجہ سے بھی تھی کہ مسلمانوں کے
مسائل کے حل کے تعلق سے حکومت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا اور دہشت گردی کے نام پر
مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں بھی ایک بڑی وجہ تھی جس کی وجہ سے مسلمان کانگریس پارٹی
سے خاص ناراض تھے اور اس کی کوشش میں رہے کہ جہاں کہیں بھی ان کو فرقہ پرست اور فسطائی
طاقتوں کو شکست دینے والا اور کوئی متبادل موجود تھا اس کی تائید کی جائے۔ موجودہ انتخابات
میں BJP کی بڑی کامیابی کی ایک وجہ ان کی پشت پر کھڑا RSS کا کیڈر، جس نے ان انتخابات میں اپنی پوری طاقت لگا
دی اور ان انتخابات کو آر پار کی لڑائی کے طور پر لڑا۔ RSS اور BJP کے کیڈر نے ان انتخابات میں غیر معمولی محنت بھی
کی اور Booth level کی بہت باریک ............ مصنوبہ بندی بھی کی تاکہ
BJP کے حق میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیا جائے اور
خصوصاً نوجوان اور پہلی مرتبہ ووٹ کرنے والوں کو خصوصی نشانہ بناکر کام کیا گیا ۔ ایک
اور اہم پہلو ان انتخابات کا یہ رہا کہ BJP نے اس طرح کی منصوبہ بندی بھی کی اور اس میں وہ کامیاب
بھی رہی کہ BJP مخالف سیکولر ووٹ تقسیم ہوجائے۔اس وجہ سے BJP صرف 31 فیصد ووٹ حاصل کرکے بھی پارلیمنٹ میں تنہا
اکثریت حاصل کرنے میں کایماب رہی۔ BJP کو ملنے والا ووٹ کل رجسٹرڈ ووٹ کا صرف21 فیصد ہے
اور اس میں بھی ہندو توا (Hindutva)
کے نظریہ کی بنیاد پر ووٹ کرنے والے ووٹرس کا فیصد 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ جس سے
یہ سمجھا جاسکتاہے کہ ابھی 85فیصد عوام ان کے اس نظریہ کی تائید نہیں کرتی۔ یہ ایک
اُمیدکا پہلو ہے۔
ہمارا ملک
ایک جمہوری ملک ہے اور اس کا ایک دستور ہے۔ یہ حکومت ایک جمہوری عمل کے ذریعہ وجود
میں آئی ہے۔ دستور کی روشنی میں اب یہ حکومت کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں بلکہ یہ اب
اس ملک کے تمام شہریوں کی حکومت ہے۔اس ملک کے دستور کے مطابق ہی حکومت کو اپنے کام
کرنے ہوں گے ۔ یہ ہم سب شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت پر نگاہ رکھیں اور اگر یہ
حکومت کہیں اس دستور کے خلاف عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو روکنا اور ٹوکنا عام
شہریوں اور خصوصاً ہم مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ حکومت کے اچھے کاموں کی تائید کرنے
اور غلط اقدام کرنے سے حکومت کو روکنا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ہم کو چاہےے کہ
مناسب وقت پر اور جب بھی ضرورت پیش آئے ہم کو بھی اس حکومت سے بات کرنی ہوگی۔ اس ملک
کی ترقی اور بہختری کے لےے ہم جو چیزیں بہتر سمجھتے ہیںاس سے بھی حکومت کو آگاہ کرتے
رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کے جو اب تک مطالبات رہے ہیں اور گزشتہ حکومتوں میں
جن پر عمل نہیں ہوسکا وہ مطالبات بھی اس حکومت کے سامنے باوقار انداز میں اپنا حق اور
ذمہ داری سمجھتے ہوئے پیش کرنے ہوں گے۔ اس حکومت کو یہ بھی ہم کو واضح کرنا چاہےے کہ
ہر اچھے اقدام کو ہماری تائید حاصل رہے گی اور حکومت کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان
اندیشوں کو غلط ثابت کرے جو اس ملک کی عوام کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ہیں۔ ہم کو پہلے
سے زیادہ چوکس (Vigilant)
رہنے کی ضرورت ہوگی۔
اس غلط خیال
کو پڑوان نہیں چڑھنے دینا چاہئے کہ ہم یعنی مسلمان اس ملک میں محکوم قوم ہیں اور اکثریت
حاکم قوم ہے۔ فرقہ پرست اور فسطائی قوتیں تو چاہتی ہی یہی ہیں کہ ہم اس کو تسلیم کرلیں۔
یقینا نا انصافیاں ہورہی ہیں، امتیازی سلوک بھی ہوتا ہے، ہمارے ساتھ دوسرے طبقات کے
مقابلے کچھ زیاجہ نوتا ہے۔ ہمارا دستور ان نا انصافیوں اور امتیازی سلوک کے خلاف لڑنے
کی قوت بھیہم کودیتا ہے۔ ہم کو نہ صرف اپنے خلاف ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز
بلندکرنی چاہئے اور ان کو روکنے کیکوشش کرنی چاہےے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جس کسی کے
ساتھ بھی نا انصافی ہو ، کسی کا حق مارا جائے، کسی پر ظلم ہو ہم مسلمانوں کو سب سے
آگے بڑھ کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہےے اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ظالم
کوئی بھی ہو چاہے وہ ہمارا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ہماری منصبی ذمہ داری بھیہے اور
دعوت حق کا تقاضا بھی۔
باشندگان ملک
کو اس پہلو سے بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے اپنے ووٹ کے ذریعہ
چن کر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھیجا ہے اور جو لوگ اب حکومت میں مختلف وزارتیں اور
دیگر عہدی سنبھال رہے ہیں وہ سب ہمارے یعنی عوام کے نمائندے ہیں اور وہ عو ام کے سامنے
جوابدہ ہیں۔ وہ ہمارے یعنی عوام کے حاکم نہیں اور عوام ان کی محکوم نہیں ہے۔ یہ ایک
المیہ ہے کہ آزادی کے 67 سال بعد بھی ہمارے ملک کی عوام ابھی تک اس غلط سوچ سے باہر
نہیں آسکی ہے۔ یہ بات ملک کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ نمائندہ بڑا نہیں ہنوتا اس کو
منتخب کرنے والی عوام بڑی ہوتی ہے۔ ان نمائندوں کو ایک خاص مدت کے لےے ایک کام سونپا
گیا ہے ، ان کاموں پر پوری نگاہ رکھنا کہ وہ ٹھیک سے اپنا کام کررہے ہیں یا نہیں، یہ
عوام کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام عوام جتنی ایمنداری سے کرے گی ہم اپنے نمائندوں کو اتنا
ہی ٹھیک رکھ پائیں گے اور عوام جتنی غافل ہوگی ملک کو اتنا ہی نقصان ہوگا۔ حالانکہ
جمہوری طرز عمل کے ذریعہ ایک ایسی حکومت وجودمیں آگئی ہے جس کی پشت پر ایک فرقہ پرستانہ
اور فسطائی رجحان رکھنے والے نہ صرف نظریہ ہے بلکہ اس کا ایک ماضی بھی موجود ہے۔ اس
امکان کو بھی پوری طرح رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنی فکر میں کچھ تبدیلی لا سکتے ہیں۔اگر
ایسا ہو تو بہت اچہا ہوگا ، مگر ہم کو اتنا سادہ لوح بھی نہیں ہونا چاہےے کہ ہم ان
کے غلط ارادوں اور اقدام سے غافل ہوجائیں، جو نہ صرف مسلمانوں کے لےے بلکہ ملک اور
اس کی عوام کے لےے بہت خطرناک ہیں۔ اس ملک کو غلط راہوں پر جانے سے روکنا ہماری ذمہ
داری ہے۔
یہ ایک حقیقت
ہے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی فرقہ پرستی اور فسطائی نظریات کی مخالف ہے، اس کو متحد
کرنا اور جو لوگ فرقہ پرستانہ نظریات سے متاثر ہیں ان کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کرنا
ایک اہم کام ہے۔ ملک میں بڑی تعداد میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لےے کام کرنے والے،
ملک میں جمہوری ماحول کو مستحکم کرنے کے لےے کوشش کرنے والے اور ظلم و نا انصافی کے
خلاف آواز اٹھانے والے افراد اور تنظیموں کی بڑی تعداد اس ملک میں موجود ہیں،ان کو
متحد اور منظم کرنا اور ان کے حوصلے کم نہ ہونے دینے کی کوشش کرنا ان حالات میں اور
زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔
وہ سیاسی پارٹیاں
جو فرقہ پرستانہ نظریات کی مخالف ہیں ان کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی جانی چاہےے کہ
اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر اور ان انتخابات کے نتائج سے سبق لے کر ملک کو خطرناک راستے
پر جانے سے روکنا ان کی ترجیح بن جائے۔ اگر ایسا کرنے میں یہ پارٹیاں ناکام رہیںیا
کچھ وقت اور یوں ہی گواں دیا تو فرقہ پرستی اور فسطائیت کا طوفان ان پارٹیوں کے وجود
کو بھی ختم کردے گا۔ حالات نے شاید اب ان سیکولر پارٹیوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا
ہوگا، اس لےے اگر ہم سب مل کر اس کے لےے کوشش کریں تو شاید یہ کام اب پہلے کے مقابلے
اور آسانی سے ہوسکے گا۔
ان حالات میں
ملت اسلامیہ ہند کو بھی متحد اور منظم کرنے کی کوشش اور بہتر انداز میں کی جانی چاہےے۔
اتحاد کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہی ہوسکتا ہے۔ مسلکی اور جماعتی تعصبات سے آزاد ہوکر
دشمنان اسلام کی سازشوں سے ہوشیار اور باخبر رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے مفادات
کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً تحریک اسلامی ہند کو اس کے
کارکنان کو اس میں موثر اور کلیدی رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ان حالات سے
متاثر ہوکر جو لوگ خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں ان کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حوصلہ
دینے اور اپنے مقام کا شعور بیدار کرنے میں ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ ان حالات سے متاثر
ہوکر کچھ مسلمان اور کچھ علماءبھی بر سر اقتدار پارٹی سے قربت بڑھانے میں اپنا فائدہ
محسوس کررہے ہیں، ایسے حضرات کو پورے اخلاص اور ہمدردی کے ساتھ سمجھانے کی کوششیں کرنا
ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کوشش کی جائے تو یقینا اللہ کی مدد بھی آئے گی اور حالات بھی
ان شاءاللہ تبدیل ہوں گے، یہ ہمارا ایمان ہے۔
ان حالات میں
حالانکہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ Corporate
Sector
کے ہاتھوں بک گیا ہے یا پھر ان کا غلام ہوگیا ہے۔ لیکن ابھی بھی میڈیا
کا ایک حصہ ایسا موجودہے جو حق و انصاف کی آواز کو بلند کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔
اس کو مضبوط کرنے اور اس کی مدد سے انصاف کی آواز کو بلندکرنے کی کوشش کرنی چاہےے۔
وہ بڑا حصہ جو سرمایہ داروں کے اشاروں پر کام کررہا ہے اس میں بھی اگر کوشش کی جائے
تو کچھ نہ کچھ جگہ (Space)
بنایا جاسکتا ہے۔
اللہ کا شکر
ہے کہ ایک ایسا میڈیا بھی اس وقت موجود ہے جو ابھی عوام کے ہاتھوں میں ہے اور ایک حد
تک آزاد ہے۔ وہ ہے انٹرنیٹ میڈیا (Internet
Media)
اور شوشل میڈیا (Social Media)
۔ اس میڈیا سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ہم کو منصوبہ بند کوشش کرنی چاہےے۔ یہ
ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے کروڑوں نوجوان وابستہ ہیں اور ایک بڑی آبادی تک اس کے ذریعہ
سے اپنی بات پہنچائی جاسکتی ہے۔
آخری مگر سب
سے اہم بات میرے خیال میں یہ ہے کہ ہم اس بات کی کوشش کریں کہ اس ملک میں ملت اسلامیہ
اپنی داعیانہ حسیت کو پہچانے اور ایک داعی گروہ میں جو صفات مطلوب ہیں وہ اپنے اندر
پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اس ملک کی عوام تک بغیر کسی تفریب کے اسلام کی دعوت کو پوری
ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ بغیر کسی خوف اور جھجک کے پہچانے کی کوشش کرنا اور ملت اسلامی
کو اس کے لےے تیار اور آمادہ کرنا ہماری ترجیحات میں سب سے اوپر آجانا چاہےے۔ ہمارے
داعیانہ مقام کا تقاضا تویہ بھی ہے کہ فرقہ پرستانہ اور فسطائی فکر اور رجحانات رکھنے
والے افراد تک بھی ہم رب کا پیغام پہنچائیں۔ ہماری داعیانہ ذمہ داریوں میں یہ بات شامل
ہے کہ ہم عوام کے مسائل سے دلچسپی لیں،ان کی تکالیف کو کم کرنے اور مسائل کو حل کرنے
کی کوشش کریں۔ مظلومین اور محرومین کو ان کے حقوق دلوانے کی ہر ممکنہ کوشش کریں۔ ہم
اپنی ان کوششوں کو اس طرح انجام دیں کہ لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ہم ان کے اصل خیر
خواہ ہیں۔ ہم اس ملک کی عوام کو اس طرح پکارےں جس طرح انبیائے کرام نے اپنی قوم کو
پکارا اور ہمارا رشتہ بھی اس ملک کی عوام سے اسی طرح کا ہو۔ یہ حالات ان شاءاللہ ہماری
دعوتی کوششوں میں زیادہ معاون و مددگار ثابت ہوں گے اور ہماری اس پہلو سے تربیت کا
بھی ذریعہ بنیں گے۔ پورے خلوص کے ساتھ اللہ کی مدداور نصرت کی دعا کرتے ہوئے اور ہماری
اس قوم کی ہدایت کے لےے اللہ سے گڑگڑاتے ہوئے دعا کے ساتھ ساتھ کوشش کی جائے گی تو
ان شاءاللہ حالات بھی بدلیں گے۔ نتیجہ جو بھی ہو ہر حال میں ہماری کامیابی یقینی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم کو حکمت اور بصیرت سے نوازے اور ہماری مدد اور نصرت فرمائے۔ اس ملک
کو اور یہاں کی عوام کو دنیا اور آخرت کے تمام خطرات سے محفوظ فرمائے اور پوری دنیا
میں اس دین عدل و رحمت کو غلبہ عطا فرمائے۔ آمین!
مضمون نگار جماعت اسلامی ہند
کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن و شعبہ رابطہ
عامہ کے سکریٹری ہیں
٭٭٭
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔