حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 28 اگست، 2014

بیورو آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم کی یہ رپورٹ کہتی ہے؟


دنیا بھر میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے بچوں کے قاتل براک اوباما ہیں۔ دراصل ڈرون حملوں کی کارروائی امریکی صدرکے حکم پر کی جاتی ہے ۔ لہٰذا انہی کو اصل مجرم قرار دیا جانا چاہیے ،نیزمسٹر اوباما جنگی جرائم کے مجرم ہیں ان پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلاکر سزا دی جانی چاہئے۔ اور دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ڈرون حملوں میں اضافہ اوباما کے دور اقتدار ہی میں ہوا ہے۔
ان خیالات کا اظہار گزشتہ دنوں ایک امریکی پروفیسر مائیکل چوسو ڈووسکی نے کو ”بیورو آف ا نویسٹی گیٹو جرنلزم“ کی ایک چشم کشا رپورٹ پر تبصرے میں کیا ہے ۔ معلوم ہو کہ امریکہ اپنے ملک میں اسکولوں میں حالیہ برسوں میں ہوئے گولی باری کے واقعات پر تشویش میں مبتلا ہے اور ملک میں گن کلچر کو کنٹرول کرنے کیلئے تدابیر اختیار کرنے پر غور وخوض کر رہا ہے۔ اسے اپنے شہریوں خصوصاً کمسن بچوں کی جان کی فکر ستا رہی ہے۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ 14دسمبر2012 کو امریکہ کے نیو ٹاون شہر میں ایک پرائمری اسکول میں ہونے والی فائرنگ میں بیس بچوں سمیت 28 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے امریکی انتظامیہ کو ملک میں پروان چڑھ رہے گن کلچر کو کنٹرول کرنے کی فکر ستانے لگی ہے اوراس پر قابو پانے کی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں فکرمندی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
 لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عراق، شام ، افغانستان ، فلسطین اورپاکستان کے ان بچوں کی ہلاکت پر اس طرح کا افسوس کبھی نہیں ظاہر کیاگیا جنہیں امریکی ڈرون حملوں میں موت کی نیندسلا دیاگیا۔ بیورو انویسٹی گیٹو جرنلزم کے ذریعے جاری رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ان حملوں میں مرنے والے بچوں کی عمریں ایک تا چار برس کے درمیان ہیں۔ بعض واقعات ایسے بھی ظاہر ہوئے ہیں جن میں کئی کئی گھروں کے سبھی بچے جاں بحق ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2004 تا2013 کے درمیان
 271بچے امریکی ڈرون حملوں کا شکار بنائے گئے ۔ یمن کے بارے میں 37 بچوں کو ڈرون حملوں کا شکار ہونا پڑا ۔ اس کے علاوہ صومالیہ میں کئے گئے امریکی ڈرون حملوں میں چار بچوں کی جان گئی ، یہ صرف ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے اعداد وشمار ہیں۔
 اس کے علاوہ امریکی فوجی کارروائیاں جو عراق افغانستان سمیت دنیابھر میں جاری ہیں ان سے ہونے والی بچوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ اسرائیلی جارحیت جو گزشتہ67 برس سے فلسطین میں جاری ہے، تازہ اسرائیلی حملوں میں 450ابتک بچے مارے جا چکے ہیں اور تین ہزار کے قریب زخمی ہیں۔اس سے قبل اسرائیلی حملے میں ایک سو سے زائد خواتین اور بچوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی، مائیکل نے اپنی رپورٹ میں صرف امریکی ڈرون حملوں کو بنیاد بناکر امریکی صدر کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا تھا اس لئے یہاں ان ہی اعداد وشمار کی روشنی میں بات کی گئی ہے۔
  بیورو آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم کی تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کا ڈرون حملوں کا یہ مشن اب پانچ برس مکمل کر چکا ہے ، اس کا ر روائی میں ابتک 2400 سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں ۔
اب ذرا غور کریں کہ امریکہ کی اس مجرمانہ کارروائی پر کیا اسی طرح کا اظہار افسوس کیا گیا ۔ کیا دنیا کے باشعور حلقوں نے اسی انداز میں اس کا نوٹس لیا اور ڈرون حملوں میں مارے گئے بچوں کے اہل خانہ اور ملک کے ساتھ اظہار تعزیت کی۔ اس کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ مغربی میڈیا کو یہ فن بخوبی آتا ہے کہ وہ اپنی جارحانہ کارروائیوں کو دنیا کے سامنے کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ انسانیت نواز معلوم ہوتی ہیں اور مظلوموں کو ظالم بناکر پیش کرتا ہے اور اس مغالطے کا شکار کم وبیش سبھی حلقے ہوجاتے ہیں۔
امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کو ملالہ یوسف زئی کی تعلیم کی فکر ستاتی ہے لیکن فلسطین کی سیکڑوں بچیاں انہیں نظر نہیں آتیں جن کے اسکولوں کو اسرائیلی جنگی جہازوں نے بموں سے تباہ کر دیا ہے ، اسے اپنے ملک میں پروان چڑھنے والے گن کلچر پر تشویش ہے مگر امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بچے عزیر نہیں ہیں ۔ وہ آج بھی اسرائیل کو مظلوم اور حماس کو ظالم قرار دیتا ہے ۔

http://www.urdutimes.com/content/62847
 -- 

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔