دارالحکومت دہلی جو حالیہ کچھ برسوں سے خواتین کے لئے انتہائی غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے اور ملک بھر میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آنے کے معاملے میں بدنام ہے، اب ایک تازہ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ یہ شہر جہیز سے ہونے والی اموات کے معاملے میں بھی سرفہرست ہے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ دہلی ملک بھر میں 2013 میں درج جہیز کے مقدمات میں اول نمبر پر ہے یہاں گزشتہ برس جہیز کے 2879 مقدمات درج کئے گئے، 125 بیٹیوں کی زندگیاں جہیز نہ دینے کی وجہ سے ختم کر دی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق بنگلور میں 428 مقدمات اور 52 اموات ہوئی ہیں۔ حیدرآباد میں 1480 مقدمات درج کئے گئے جن میں 93 لڑکیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ممبئی میں 602 مقدمات درج کئے گئے جس میں 21 عورتوں کو قتل کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات میں جہیز کے 1756 مقدمات درج ہوئے جن میں 20 کی موت ہوئی ہے۔ کولکاتا میں 1005 مقدمے درج ہوئے جن میں 15 خواتین کی موت کی تصدیق کی گئی ہے اور چنئی میں سب سے کم 221 مقدمے درج کئے گئے ہیں جن میں 12 خواتین کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہلی میں 2013 میں جہیز کے مقدمات میں 25 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ تشویش ناک اضافہ دہلی میں 16 دسمبر 2012 کے جنسی زیادتی کے اس واقعے کے بعد درج کیا گیا ہے جس میں لڑکی کی دردناک موت ہو گئی تھی۔ خیال رہے یہ رپورٹ ملک کے صرف 53 شہروں کے اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔ دیہی علاقوں اور دیگر شہروں میں درج جہیز کے مقدمات کا احاطہ اِس رپورٹ میں نہیں کیا گیا ہے۔ اگر دیہی علاقوں کے اعداد و شمار بھی شامل کر لئے جائیں تو اور بھی خراب صورت حال سامنے آئے گی کیوں کہ دیہی علاقوں میں جہیز سے ہونے والی اموات کے زیادہ تر معاملات درج ہی نہیں ہوتے۔
اِس رپورٹ میں جاری اعداد و شمار سے معاشرے کی موجودہ صورت حال کی ابتری کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ تمام تر بیانات اور جہیز مخالف مہمات کا اثر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سخت قوانین اور معاشرے میں بیداری کے باوجود جہیز سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہی درج کیا گیا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کی کوششیں کیوں رائیگاں جا رہی ہیں۔ انہی باتوں کے پیش نظر دہلی کے کچھ درد مند افراد پر مشتمل ایک گروپ نے معاشرے کو جہیز کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے عملی اقدامات کی پہل کی ہے اور نئی نسل کو جہیز کی لعنت سے نکالنے کے لئے منصوبہ ترتیب دیا ہے۔ اِس گروپ نے طے کیا ہے کہ اسکولوں میں جا کر بچوں اور اساتذہ میں کام کریں اور اسکولوں میں روٹری کلب، بلڈڈونیشن کلب کی طرز پر، نوڈورری کلب، بنائیں اور نئی نسل سے یہ عہدلیں کہ آنے والے دنوں میں جہیز کے خلاف عملی اقدامات کریں گے۔ خاص طور سے نوجوان نسل کو اس لعنت کے بارے میں بیدار کرنے کی ذمہ داری اِس گروپ نے اٹھا رکھی ہے۔ دہلی میں اِس کی شروعات بال بھارتی پبلک اسکول پتیم پورا کی انتظامیہ نے کی ہے۔ بلاشبہ جہیز کی لعنت سے معاشرے کو نجات دلانے کی غرض سے اٹھایا گیا یہ قدم قابل تحسین ہے۔ نوجوان نسل کی ذہن سازی اِس انداز میں کی جانی چاہئے تاکہ بڑے ہونے کے بعد جب وہ شادی کے مرحلے میں داخل ہوں تو وہ خود اِس لعنت کی مخالفت کے لئے خود بخود آگے آئیں۔ اِس طرح کی کوششوں کو مزید منظم کرنے اور مثالی بنانے کی ضرورت ہے۔
جب جب جہیز سے ہونے والی اموات کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں ہر کس و ناکس کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مذہبی و سماجی تنظیموں کی جہیز مخالف مہمات نتیجہ خیز ثابت کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟ اصلاح معاشرہ کی تمام تر کوششیں بے سود کیوں ثابت ہو رہی ہیں؟ معاشرے میں پیدا ہونے والی تعلیمی بیداری کے باوجود اس وبا میں روز بروز اضافہ ہی کیوں درج کیا جا رہا ہے؟ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سماج کا وہ باشعور سمجھا جانے والا طبقہ جو اس طرح کی اصلاحی کوششوں کے لیے کوشاں نظر آتا ہے اس کی اصل صورت حال کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا عرصہ دراز سے جاری جہیز مخالف کوششوں کے نتیجے میں معاشرے میں ایسا کوئی انسانی گروپ وجود میں آ سکا ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ اس نے کم از کم اپنے حلقے کو جہیز کی لعنت سے پاک کر لیا ہے۔ نیز جہیز سے ہونے والی اموات اور زیادتی کے واقعات کی تحقیق اور تجزیے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اِس طرح کے واقعات میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر خواتین ہی ملوث پائی جاتی ہیں۔ گھر میں آنے والی بہو کو دن رات جہیز نہ لانے کا طعنہ دینے والی ساس ہوتی ہے یا پھر اس گھر کی بیٹی ہوتی ہے جو کل کسی دوسرے گھر کی بہو بنے گی حالات کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت ہی ایک عورت کی موت کا سبب بنتی ہے لہذا اِس پورے معاملے کا تجزیہ کرتے وقت یہ پہلو بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے اور اصلاح حال کی کوششوں میں خواتین کی حصہ داری متعین کی جائے اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کرائی جائے کہ آخر ساس بھی کبھی بہو تھی۔ ظاہر یہ کام بہت آسان نہیں ہے۔ عملی اقدامات میں آنے والی معاشرے کی بیہودہ روایتیں آڑے آئیں گی ان پر سے گزرنا ہو گا۔ ہمارے وہ سماجی اور مذہبی قائدین جو جہیز سے پاک معاشرے کی خواہش کرتے ہیں انہیں سب سے پہلے خود اپنے بچوں کی شادی بیاہ کو مثالی ہو گا تبھی معاشرہ اس کا اثر قبول کرے گا ورنہ دہائیوں سے چلی آ رہی یہ کو ششیں صدیوں بعد بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم عملی اقدامات کے لیے تیار ہیں؟ اصلاحی گروپوں کو بطور خاص اس کا نوٹس لینا چاہے۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔