ایسی اطلاعات ہیں کہ چندی گڑھ پولیس نے ہندوستانی فضائیہ کے ایک اہل کار کو ایک پاکستانی خاتون کو فوج کی خفیہ اطلاعات منتقل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے 24 سالہ سنیل کمار راجستھان کے جودھ پور کا رہنے والا ہے ۔ سکیوریٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص سماجی رابطے کی ویب سا ئٹ پر ایک پاکستانی خاتون کے رابطے میں آیا اور پھر رقم کے عوض خفیہ اطلاعات پہونچانا شروع کردیا ۔ٹھیک اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ اگست کے اوائل میں ظاہر ہوا تھا اس معاملے میں حیدرآباد پولیس نے پتن کمار پود دار جو ہندوستانی فوج کی سکندرآباد یو نٹ میں صوبیدار کے عہدے پر تعینات تھا ،یہ شخص بھی رقم کے عوض ایک پاکستانی خاتون کو خفیہ اطلاعات فراہم کرتا تھا ۔ یہ اور اس طرح کے دیگر شر منا ک واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیںجو ملک کی باوقار فوج کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ۔اس سے قبل فروری 2014 کے اواخر میں اتر پردیش اے ٹی ایس نے ایک اور مبینہ جاسوس سابق فوجی صوبے دار اندرپال کشواہا کو گرفتارکیا تھا اسے بھی پڑوسی ملک کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں 24فروری کو جھانسی سے گرفتارکیا گیاتھا۔
واضح ہو کہ فوج میں پیش آنے والے اس طرح کے سنگین واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے یو پی اے سرکار سے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نریش اگروال نے ایوان میں ایک تحریری سوال کیا تھا بھلا بتائیں کہ فو ج میں مبینہ جاسونی کے کتنے معاملے پائے گئے ہیں ؟ جس کے جواب میں سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی نے ایوان کو بتایا تھا کہ 2011 سے فروری 2014 تک ملک کی مسلح افواج میں مبینہ جاسوسی کے پانچ معاملے سامنے آئے ہیں انہوںنے مزید کہا کہ ملک کی کچھ انٹلیجنس ایجنسیاں مبینہ طور پر جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہیں ، تاہم اس کو روکنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جارہے ہیں۔
یہ انکشاف عوام کے لیے حیرت انگیز تو ہو سکتا ہے لیکن نیا نہیں کیوں کہ میڈیا میں یہ خبریں وقفے وقفے سے آتی رہی ہیں۔ تازہ واقعات کے بعد اب یہ تعدا دآٹھ ہو گئی ہے ۔یقینا اس انکشاف سے ہر محب وطن شہری کو دلی تکلیف پہنچنا فطری ہے کیونکہ ملک کا ہر شہری اپنی گاڑھی کمائی کا بڑا حصہ جو ٹیکس کی شکل میں سرکاری خزانے میں جمع کراتا ہے اور اس کا بڑا حصہ ملک کی دفاع پر خرچ کیا جاتا ہے،اپنی مسلح افواج کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرانے کی سرکار بھرپور کوشش کرتی ہے، ہر برس دفاعی اخراجات کی مد میں ملک کی دفاعی ضرورتوں کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاتا ہے۔
ہر برس 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر منعقد پریڈ میں جنگی سازوسامان اور مسلح افواج کے حیرت انگیز کارنامے دیکھ کر ہرمحب وطن شہری کے دل ودماغ میں اپنی افواج کے تئیں احترام کا جذبہ پیداہوتا ہے، لیکن جب کبھی میڈیا میں مسلح افواج کے جاسوسی ملوث ہونے کی خبریں آتی ہیں تو نہ صرف عوام کااعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ مسلح افواج کی کارکردگی پر ذہنوں میں سنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔ یقینا یہ عمل ہرایک کو تشویش میں مبتلا کردینے والا ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ماضی میں ایسے کئی مواقع پر سکیوریٹی ایجنسیوں کی جانب سے عدم توجہی اور جاسوسی جیسے قبیح جرم سرزد ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور ملک کو سلامتی کے خطرات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ملک کے ساحلوں کی حفاظت پر تعینات سیکورٹی افسران کی سازباز کی وجہ سے ہی وطن عزیز میں بڑے دہشت گردانہ واقعات ہوئے، 1993 میں ممبئی میں بم دھماکوں کے واقعات کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ دھماکہ خیز مادے کی سپلائی میں ساحلی گارڈ ملوث پائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 26نومبر 2008 کو تاج ہوٹل دھماکہ اور 13 دسمبر2001 کو پارلیمنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں بھی سیکورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا تھا ۔
لیکن مذکورہ سبھی معاملوں میں موقع پر تعینات سکیوریٹی ایجنسیوں کی عدم کار کردگی پر کوئی تادیبی کار روائی نظر نہیں آئی ۔جب کبھی معاشرے کے باشعور حلقے اس جانب توجہ مبذول کراتے ہیں تو انہیںیہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ سکیوریٹی ایجنسیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی ۔پچھلی سرکار نے مبینہ جاسوسی کے بارے میںملک کو یہ تو بتایا کہ مذکورہ مدت میں پانچ معاملات ظاہر ہوئے، لیکن معاملات سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں ابتک کتنے معاملات میں جرم ثابت ہو نے پر سزا دی گئی اس کی تفصیلات ابھی تک نہیں آسکی ہیں ۔ بہرحال یہ معاملہ ملک کی سلامتی سے وابستہ ہے ،سرکار کو اس طرح کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے سخت کارروائی کرنی چاہئے۔حالیہ دونوں واقعات میں انٹر نیٹ کے ذریعہ رابطہ ہوا پھر اطلاعات کی ترسیل کا کام انجام دیا گیا ، حکومت کو موجود ہ سائبر قوانین کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ ساتھ ہی فوجیوں کو مطمئن رکھنے کے طور طریقوںاور ان کو پیش آنے والی دشواریوں کا بھی جائزہ لیا جا ئے ، حالیہ سبھی واقعات کے تجزیے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اطلاعات کے عوض وہ رقمیں حاصل کیا کرتے تھے ۔اس طرح کے واقعات سے ہرکسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک فوجی جسے تربیت کے سخت مراحل سے گزارا جاتا ہے وہ محض چند پیسوں کے عوض ملک سے غداری کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ؟ یہ معاملہ ملک کی سلامتی سے وابستہ انتہائی حساس معاملہ ہے اس پر سنجیدگی سے غور و خوض کیا جانا چاہیے۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔