کتاب عرض ہے
تبصرہ نگار :- تحسین منورؔ ٭٭٭٭٭٭
بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے شائد اس صدی کی شروعات کے آس پاس کی ہے تب ہم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہی رہتے تھے۔ اس دوران ہم نے ڈاکٹرخواجہ اکرام صاحب کو جاننا شروع کیا تھا۔ ہمیں معلوم چلا کہ وہ اردو شعبہ سے جُڑے ہیں لیکن ہم نے ان کو اکثر کمپیوٹر معلومات کے ساتھ الجھا دیکھا تو ہم سو چ میں غرق ہو گئے کہ یہ اردو کے آدمی ہوکر کمپیوٹر میں کیوں اپنا وقت بربا د کررہے ہیں۔اس دوران جے این یو کے ساتھ ہی موجود انڈین انسٹیٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن کے احاطے میں کمپیوٹر اور ایس ٹی ڈی سہولیات کے ساتھ اے پی کمپیوٹر نام کی ایک دکان بھی وجود میں آچکی تھا جہاں ہم اکثر ڈرتے ڈرتے انٹرنیٹ استعمال کرتے تھے کہ کہیں کمپیوٹر ہماری زرا سی غلطی سے برباد نہ ہوجائے۔ ہمارا سارا کام وہاں موجود انل پوار جو کہ اس دکان کے مالک تھے ،کردیا کرتے تھے ۔ہم کمپیوٹر سے بہت ڈرتے تھے اور ہمیں ایسا لگتا تھا کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا بٹن نہ دب جائے جس سے اس کمپیوٹر کا سارا خرچ ہمارے اوپر ہی آجائے۔ اس زمانے میں ڈاکٹرخواجہ اکرام صاحب اپنے گھر کمپیوٹر لے آئے تھے اور اکثر جب ان کے یہاں جانا ہوتا تب وہ کمپیوٹر پر یا تو بیٹھے ملتے یا پھر ہم کو ہی کچھ اس پر دکھانے یا پڑھنے کے لئے بلا لیتے۔
ایسے تمام اردو والوں کی طرح جن پر خود کو دوسروں سے کہیں زیادہ قابل سمجھنے کا بھوت سوار ہوتا ہے ہم بھی اس وقت اس نشے میں چور تھے کہ اردو والے جدید تکنیک کے بارے میں کیا جانیں اور یہ بس اسی طرح الف ب سے ہی الجھے رہ جائیں گے ۔ لیکن اس زمانے میں ڈاکٹر خواجہ اکرام صاحب سے ملنے کے بعد ہمارا وہ نشہ ہرن ہونے لگا تھا ۔تب ہم نے جے این یو میں تحقیق کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا مگر نہ جانے ہماری زیادہ قابلیت یا غرور کی وجہ سے ہمارا داخلہ نہیں ہو پایا تھا۔ یہ نئے تکنیکی وسائل سے ڈاکٹر خواجہ اکرام کا تعلق ہی تھا کہ جس نے انھیں ان وسائل کا پہلے پہل فائدہ اٹھانے والوں کی صف میں شامل کر لیا تھا اور پھر ان کے قدم رکے نہیں۔ ان وسائل سے آشکار ہونے کے بعد ہی غالباً انھوں نے انگریزی میں بھی لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ان کے اکثر سیاسی اور علمی نوعیت کے مضامین نہ صرف اردو میں شائع ہونے لگے تھے بلکہ ان مضامین نے ہندی اور انگریزی کے قومی سطح کے بڑے اخبارات میں بھی جگہ پانا شروع کر دیا تھا۔
ہمارے جیسے لوگ جس وقت انٹرنیٹ کو بھوت سمجھ کر اس سے گھبراتے تھے تب خواجہ اکرام اس بھوت کی سواری کرنے لگے تھے۔انھیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ اب اردو کے زیادہ تر اخبارات بھی سائبر ورلڈ کا حصّہ بنتے جا رہے ہیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اب دنیا کا مستقبل طے کرنے جارہی ہے ۔اس لئے انھوں نے اس تکنالوجی (اس کتاب میں ت اور ٹ دونوں ہی استعمال ہوئے ہیں)سے خود کو ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں کامیاب بھی رہے۔یہی نہیں اس کا انھیں بہت فائدہ بھی ہوا۔ ہمارے جیسا انسان جو من ہی من ان کی ٹکنالوجی سے رغبت کو لے کر مسکرایا کرتا تھا ایک دن ان کے ایک ایسے پروگرام کی نظامت کر رہا تھا جس میں مرکزی وزیر شامل تھے اور وہاں پر اردو کے لئے نئے ٹولس اور اردو پیڈیا کا اجراء عمل میں آرہا تھا۔ یہی نہیں ایک بار وہ ہمارے ساتھ دوردرشن کی خبروں میں زندہ (لائیو) موجود تھے اور ہمیں بتا رہے تھے کہ کس طرح موبائل پر اردو میں بھی پیغامات ٹائپ کئے جاسکتے ہیں۔
یہ سب تمہید باندھنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ خواجہ صاحب کی جس کتاب کو ہم آج عرض کرنے جارہے ہیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے۔ جو شخص تکنیک کے معاملے میں اس قدر سنجیدہ ہو وہ جب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے حوالے سے اس پر کوئی کتاب تحریر کرے تو اس میں اردو زبان کے نئے تکنیکی وسائل اور امکانات یقینی طور پر ابھر کر آ ہی جاتے ہیں۔ آج جب کہ ہمارے مدارس تک کمپیوٹر ٹکنالوجی کو اپنانے میں آگے ہی آگے ہیں ایسے میں یہ کتاب اس موضوع کو یقینی طور پر ہمارے سامنے بہتر طور پر پیش کر پاتی ہے۔ کتاب کا انتساب برطانیہ ،آسٹریلیا،کناڈا،امریکہ،جرمنی ،اور پاکستان سے ایک ساتھ شائع ہونے والے اردو کو انٹرنیٹ کا نیا اسلوب اور معیار عطا کرنے والے اردو کے اہم آن لائن اخبار اور بلاگ عالمی اردو اخبار اور اردو نیٹ جاپان کے نام ہے۔ اظہار تشکر میں بھی ان دونوں کا تذکرہ کیاگیا ہے ۔ عالمی اردو اخبار کو اردو کا پہلا آن لائن اخبار کہا گیا ہے۔
کتاب کا سرورق شاندار ہے کہ اس میں تکنیکی عوامل کی بھرمار ہے مگر اس میں کہیں ڈاکٹر خواجہ اکرام کا نام کھو سا جاتا ہے۔مکتبہ جامعہ کی پیشکش یہ کتاب صرف /-۱۹۰ روپئے کی ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ انھوں نے یہ کتاب ۲۰۱۲ ء میں ہی کیوں لکھی ۔کیا انھیں اس کا ڈر تھا کہ کہیں تحسین منورؔ اس کتاب کو پڑھ کر کمپیوٹر ٹکنالوجی میں ماہر نہ ہوجائیں۔ یہ کتاب ماضی ،حال اور مستقبل سب پر ہی نظر بنائے ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی عام زبان ہے جو نہایت آسان ہے اور اس میں ٹکنالوجی سے جُڑے ناموں کا زبردستی ترجمہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اس صدی کو امکان کی صدی کہتے ہوئے وہ آج اور آنے والے کل کی جملہ ترقی کا محور ٹکنالوجی اور میڈیا کو قرار دیتے ہیں۔
کتاب کے حصّہ اول ’’نئے تکنیکی وسائل ‘‘ میں ’اردو اور جدید تکنالوجی ‘ مضمون کے یہ چند اقتباسات دیکھیں: ’’سلیمان کی انگوٹھی اور علاء الدین کے چراغ جیسے حیرت انگیز کرشمے آج کے کمپیوٹر میں موجود ہیں اور ذخائر کو چھوٹی سی جگہ اور ڈیوائس مثلاً کمپیوٹر کے ہارڈ ڈسک ،سی ڈی ،ڈی وی ڈی اور پین ڈرائیومیں محفوظ کرنے کی صلاحیت عمرو عیار کی زنبیل سے کم نہیں ہے ۔۔۔‘‘ وہ اس دور کے بدلتے تکنیکی مزاج کو کتنے خوبصورت انداز میں سامنے لاتے ہیں وہ اس پیرائے سے اندازہ ہو جائے گا : ’’ ہم ۹۰ کی دہائی کو معلومات کے انقلاب کی دہائی کہتے تھے ،زیادہ دن نہیں گزرے کہ اس ترقی نے دنیا کے حجم کو سمیٹ لیا اور ہم نے اسے گلوبل ویلیج کہنا شروع کیا اور اسے الیکٹرانک عہد سے موسوم کرنے لگے ،پھر جلد ہی اسے ڈیجیٹل عہد کہا جانے لگا اور اب اسے سائبر ایج سے بھی موسوم کرنے لگے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں ’’ کمپیوٹر کی تین بنیادی خصوصیات ہیں : تیز رفتاری ،درستگی اور مستعدی ۔ وہ آگے کمپیوٹر کی بدلتی ہوئی دنیا پر بھی روشنی ڈال دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ ہر جنریشن میں کمپیوٹر ٹکنالوجی نے ترقی کی نئی منزلوں کو چھوا ہے ،پہلے بڑے بڑے آلات ہوتے تھے اور مشینیں ہوتی تھیں اب یہ ہتھیلیوں میں سماجانے والی مشین کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جو نہایت کفایتی اور سستے داموں میں بھی دستیاب ہیں ۔‘‘
کتاب کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔حصّہ اول جو نئے تکنیکی وسائل کے عنوان سے ہے اس میں پانچ مضامین ہیں ۔پہلا اردو اور جدید تکنالوجی ،دوسرا اردو میں انٹرنیٹ کا استعمال ،تیسرا ،اردو زبان کی تدریس اور سائبر اسپیس : ایک تحقیقی جائزہ ،چوتھا مضمون اردو کا ادبی سائبر اسپیس : ایک جائزہ اور آخری ہے اکیسویں صدی میں الیکٹرانک میڈیا کے تقاضے اور اردو۔ اس کے علاوہ حصّہ دوّم جو کہ انٹرنیٹ اور نیا اسلوب کے عنوان سے ہے ۔اس میں سات مضامین ہیں ۔پہلا ای میل اور بلاگ نگاری ،دوسرا انٹرنیٹ کا نیا اسلوب ،تیسرا مراسلہ نگاری بمقابلہ بلاگ نگاری ،چوتھا اپنے دم پر رواں ہے اردو ،پانچواں ہے تعمیل حکم ،جب کہ چھٹا ہے شاعری کا استعمال اور نئے سال کا جشن۔ آخری چند مضامین انٹرنیٹ سے لئے گئے ہیں جن میں خواجہ اکرام کے اپنے مضامین بھی ہیں۔
کتاب میں بلاگ پر کئے گئے کمنٹس کے حوالے سے ہمارے سماج کے چند مسائل کو بھی خوبصورت انداز سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے علاوہ اردو شعر و شاعری کا بھی اس میں تڑکہ مل جاتا ہے۔ لیکن اس میں زیادہ تر اشعار پائے کے ہیں اور جنھیں پڑھ کر کتاب کی تکنیکی باریکیوں کی جو یلغار ہے ان پر قابو پانے میں سہولت سی ہو جاتی ہے ۔یہی نہیں مختلف موضوعات پر جو بحث بلاگ کا حصّہ ہیں انھیں پڑھنا دل چسپی سے خالی نہیں ہے ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں شامل لوگ گلوبل دنیا کا حصّہ ہیں۔ کوئی پاکستان میں بیٹھا ہے تو کئی جرمنی میں تو کوئی کویت میں مگر سب اپنے طور پر اپنی بات رکھ رہے ہیں۔ ایک مضمون جو شاعری میں محاوروں کے استعمال کو لے کر ہے وہ کافی قابل ’’ریڈ ‘‘ ہے ۔یعنی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مضمون آصف احمد بھٹی کویت کا ہے جو کہ انھوں نے ۱۰ ،اکتوبر ۲۰۱۰ ء کو رکھا ہوگا۔جس میں وہ داغ ؔ کے بارے میں یہ کہتے ہوئے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں دل کھول کر محاوروں کا استعمال کیا ہے یہ درخواست کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہاں استادوں کے ایسے اشعار جمع کریں جن میں محاوروں کا استعما ل کیا گیا ہے ۔اس کے جواب میں صفدر ہمدانی، امام احمد رضا خاں کی ’’حدائق بخشش‘‘ کی پہلی نعت کا ذکر کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نعت میں ۲۵ اشعار میں ۲۸ محاوروں کا استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد وہ ان ۲۸ محاوروں کو پیش بھی کرتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پوری نعت بھی یہاں موجود ہے۔ عہد مناف کہتے ہیں کہ میر انیسؔ نے سب سے زیادہ محاورے استعمال کئے ہیں۔منظور قاضی جرمنی سے کہتے ہیں کہ اس موضوع پر تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ غرض یہ کہ اس کتاب میں موجود اس قسم کے موضوعات کتاب کو بوجھل نہیں ہونے دیتے ۔
کتاب کے بیک کور پر خالد محمود صاحب کا یہ بیان قلم بند ہے کہ ان کے علم کے مطابق اردو زبان کے نئے تکنیکی وسائل اور امکانات ہندوستان میں شائع ہونے والی اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے ۔ویسے یہ کتاب ذرائع ابلاغ کے مختلف پہلووں کو بھی چھوتی ہے ۔جس میں ریڈیو کی اہمیت کی اگر بات کی جائے تو وہ ابھی گزشتہ دنوں ہمارے وزیر اعظم نے تو محسوس کر ہی لی تھی۔جب انھوں نے نہ صرف ریڈیو پر خطاب کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ کم سے کم ایک بار نہیں تو دو بار ہر مہینے ریڈیو کے ذریعے اپنا پیغام پیش کیا کریں گے۔یہ کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ کس طرح آپ اپنے کمپیوٹر میں اردو ٹولس انسٹال کر سکتے ہیں۔ ایک شعر کے ذریعے اس کتاب میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے کہ جو لوگ اب بھی سائبر اسپیس اور اردو تدریس کے معاملے میں نئی تکنیک سے ہم آہنگ نہیں ہو رہے ہیں ۔بدلتے وقت کے اس نئے آلہ سے بچنے کی یہ روش ہمیں مقابلہ سے دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیں جدید ٹکنالوجی کی شدید ضرورت ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم تکنالوجی کی اس حصولیابی کے ساتھ ساتھ خود کو مشین ہی نہ بنادیں ۔ہر وقت فیس بک یا وہاٹس اپ میں ہی وقت برباد نہ کرتے ہوئے کچھ دیگر تعمیری کام بھی کریں۔ یہ ضروری تھا کہ اس کتاب میں ایک ایسا مضمون بھی موجود رہتا جو امکانات کے دائرے میں ہی رہتے ہوئے اندیشہ ہائے سود وزیاں پر بھی روشنی ڈالتا۔ ہمارے پاس جو جذبات کی دولت ہے وہ بہت ضروری ہے مگر کچھ لوگ مشین بننے کی دوڑ میں جذبات سے عاری ہوتے جا رہے ہیں اس کا بھی ہمیں خیال رکھنا ہوگا۔ باقی ان کے لئے جو ٹکنالوجی سے دور دور رہتے ہیں یہ شعر کافی ہے جو کہ اس کتاب کا ہی حصّہ ہے ۔
اے موج بلا ہلکے سے ذرا دو چار تھپیڑے ان کو بھی
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
(بہ شکریہ ہمارا سماج)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔