دنیا بھر میں انسانی آزادی اورجمہوریت کا خود ساختہ
چیمپئن امریکہ ان دنوں عالمی سطح پر شدید نقطہ چینی کا شکار ہو رہا ہے ، معاملہ
امریکی ریاست میسوری میں جیوری کی جانب سے ایک سیاہ فام نوجوان کے قاتل سفید فام
پولیس اہلکار کو مجرم قرار نہ دینے کے فیصلے کا ہے۔
اس واقعے نے
امریکہ کی انسانیت نوازی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ،حالانکہ اس وقت امریکہ کی
صدارت ایک سیاہ فام کے ہاتھوں میں ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ یہ امتیازی سلوک
سفید فام حکمرانوں کے ذریعہ ماضی میں تشکیل دیے گئے نظام کی خرابی کی وجہ سے ہے۔
- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/%DA%A9%D8%A7_%D9%84%D9%85/2014/12/2171_#sthash.QgKOvliv.dpuf
کم و بیش یہی صورت حال ہندوستان کے تناظر میں بھی کہی
جا سکتی ہے جس پولیس کا قیام انگریز حکمرانوں نے اپنی جابرانہ حکومت کو تحفظ رفاہم
کرنے اور اس کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کیا تھا ، پولیس کو بے پناہ اختیارات
فراہم کرنے والا وہی پولیس ایکٹ آزادی کے65 برس بعد بھی برقرار ہے جس کا خمیازہ
آئے دن کمزور طبقات کو اٹھانا پڑرہا ہے ، بے قصور افراد کو سالہاسال کے لیے جیلوں
میں ڈال دیا جاتا ہے۔
امریکہ میں اس فیصلے کے بعد سے مظاہروں کا جو سلسلہ
شروع ہوا تھا اب ملک بھر میں پھیل گیا ہے۔ یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایک
گرینڈ جیوری نے ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں ایک سفید فام پولیس اہلکار پر ایک
سیاہ فام نوجوان کے قتل کے الزام کے تحت کارروائی کے مطالبات کو رد کر دیا۔ اسی
سال اگست میں ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں فرگوسن کے ایک غیرمسلح سیاہ فام
نوجوان مائیکل براون کی ہلاکت کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں سفید فام لوگوں
کی ا?بادی سیاہ فام کے مقابلے تقریبا چھہ گنا زیادہ ہے لیکن جیلوں میں یہ تناسب
بالکل برعکس ہو جاتا ہے یعنی امریکی جیلوں میں چھ سیاہ فام قیدیوں کے مقابلے صرف
ایک ہی سفید فام قیدی نظر ا?تا ہے۔ فرگوسن کا یہ واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔ اب
امریکہ اس کی لاکھ صفائی پیش کرے لیکن دنیا بھر میں اسے امریکی نظام کی ناکامی کے
طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔
ہندوستان کی جیلوں کیجائزے سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی
ہے کہ ہندوستانی جیلوں میں ملک کی آبادی کا جو حصہ جیلوں میں بند ہے ان قیدیوں
میں 53 فیصدی سے زیادہ مسلم ،دلت وآدی باسی قیدی ہیں۔ یہ تینوں طبقے ہمارے معاشرے
کا سب سے کمزور حصہ سمجھے جاتے ہیں اور ا?بادی کے لحاظ سے ہندوستانی سماج میں یہ
لوگ 39 فیصد ہیں۔
یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ کسی وجہ سے قانون
توڑتے ہیں اور ملک کا قانونی نظام ان کو قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں سزا دینے
کا کام کرتا ہے تو اس میں قابل اعتراض کیا ہے ؟ لیکن یہاں قابل غور دو مسئلے ایسے
ہیں جو اس پورے معاملے کو کافی اہم بنا دیتے ہیں اول یہ کہ اگر سماج کا کوئی حصہ
بار بار قانون توڑنے کی کوشش کر تا پایا جاتا ہے تو اس پرغوروخوض کیا جانا چاہئے
کہ ا?خر اس کی وجہ کیا ہے؟ اور اگر کچھ حالات انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں
تو انہیں بدلا کیوں نہیں جا رہا ہے ؟
بلاشبہ ہندوستان میں حالات امریکہ جیسے برے تو نہیں
ہیں لیکن اس کے باوجود کمزور طبقوں کا جیل میں اتنی بڑی تعداد میں ہونا ایک ایسا
مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کی جیلوں میں مسلم ،دلت اورآدی
باسیوں کا یہی تناسب گزشتہ پندرہ برس سے برقرار ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جیل کے
اندر کی ا?بادی کا تقریبا 68 فیصد زیر سماعت قیدیوں پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ لوگ جیل
کی سزا تو کاٹ رہے ہیں لیکن قانون کی نظر میں مجرم ثابت ہوئے
بغیرہی، بڑی تعداد ایسے قیدیوں کی ہے جن کا جرم
ضمانتی زمرے میں آتا ہے لیکن ابتک یا تو ضمانت کے لیے ان کی عرضی ہی نہیں داخل کی
گئی ہے یا ان کی ضمانت لینے والا کوئی نہیں ہے۔ کسی انسان کی زندگی صرف اس کی
سماجی حالت کی وجہ سے بر باد ہو رہی ہو یہ کسی بھی نظام کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی
ہونا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جو ان دنوں کانگریس کے بنائے قوانین کو فرسودہ قرار دیکر انہیں ختم کرنے کی بات جا بجا دہراتے نظر آتے ہیں کیا1861میں بنائے گئے انگریزوں کے زمانے کے فرسودہ پولیس ایکٹ کو ختم کرکے پولیس اصلاح لانے کا کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟
اب سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جو ان دنوں کانگریس کے بنائے قوانین کو فرسودہ قرار دیکر انہیں ختم کرنے کی بات جا بجا دہراتے نظر آتے ہیں کیا1861میں بنائے گئے انگریزوں کے زمانے کے فرسودہ پولیس ایکٹ کو ختم کرکے پولیس اصلاح لانے کا کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟
انگریر حکومت کے تحفظ و بقا کے لیے بنایا گیا پولیس
ایکٹ آزاد ہندوستان کے شہریوں کے لیے قطعی مناسب نہیں قرار دیا جا سکتا۔ گزشتہ
دنوں اپنے آسٹریلیا دورے کے دوران وزیر اعظم نے ہند نزاد شہریوں سے خطاب میں سابقہ
حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا انہیں قانون بنانے میں لطف آتا تھا مجھے تو
قانون ختم کرنے میں مزہ آتا تھا ایسے قوانین کس کام کے جو ہمارے شہریوں کے ترقی
میں روکاوٹ بنیں۔
اگر یہ مان لیا جا ئے کہ وزیر اعظم نے \" سب کا
ساتھ سب کا وکاس \" کا جو نعرہ دیا ہے صحیح معنوں میں اس کوعملی جامہ پہنانا
چاہتے ہیں جیسا کہ نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے بھی مودی کے اس نعرے کی
تعریف کرتے ہوئے مسلمانوں کو حکومت کے ساتھ سرگرم شراکت داری نبھانے اورترقی میں
حصہ داری حاصل کرنے کا مخلصانہ مشورہ دیا ہے تو مودی کو اپنے ان ساتھیوں پر بھی
لگام دینا ہوگا جو گاہے بگاہے ایسے ویسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیکر سرخیاں بٹورتے
رہتے ہیں اورمعاشرے کو ایک خاص مذہب و کلچر کی بنیادوں پرتقسیم کرنے میں رات دن
اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں۔نیز جو مودی کو اپنا ابھیمنیو قرار دے رہے ہیں اور
چکر ویو توڑنے والا بتا کر اپنے لوگوں کو ایک خاص وقت تک صبر کرنے کی تلقین کر رہے
ہیں وہ یہ بھی بتائیں کہ چکر ویو سے مراد کیا ہے ؟
- See more at:
http://www.asiatimes.co.in/urdu/%DA%A9%D8%A7_%D9%84%D9%85/2014/12/2171_#sthash.QgKOvliv.dpuf
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔