حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 18 مئی، 2012

قصہ ایک بے خانما زبان کا

اشرف علی بستوی
 پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اردو دوستی کاعملی ثبوت پیش کرتے ہوئے، انگریزی زبان میں ایک کتاب تحریر کی ہے جس کاعنوان ”جسٹس فاراردو“ رکھاگیا ہے۔ ان کے اس جذبے کی قدر کی جانی چاہےے کہ انہوںنے اردو مخالف فضا میںحوصلہ مندی کامظاہرہ کیا۔ انہوںنے اردو زبان کے ساتھ کتنا انصاف کیا ہے اس کااندازہ کتاب کے مطالعے کے بعد ہی کیاجاسکتاہے۔ لیکن یہ کیا کم ہے کہ وہ اردو زبان کے حق میں مسلسل آواز بلند کررہے ہیں۔ اسی طرح ملک میں اردو زبان کے فروغ کے لےے مرکزی حکومت نے فروغ انسانی وسائل کی وزارت کے تحت ملک گیر سطح پر ایک ایسا ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان قائم کیا ہے جو دہلی کے جسولا وہار میں واقع اپنے مرکزی دفتر ”فروغ اردو بھون“ سے رات دن اردو کی گراں قدر خدمت انجام دے رہا ہے۔ گویا ”بھون“ سے اردو زبان کے فروغ کی جدوجہد کی جارہی ہے ۔
اس سلسلے میں ایک توجہ طلب امر یہ ہے کہ ملی تنظیموں نے اپنے دستور میں تو کام کاج کی زبان اردو کو طے کررکھا ہے لیکن اہم مواقع پر تیار ہونے والے ان کے پریس نوٹ پہلے انگریزی میں جاری ہوتے ہیں بلکہ بسااوقات انگریزی میں ہی تیار کےے جاتے ہیں اس کے بعد اس کاترجمہ اردو یا دیگر زبانوں میں ہوتاہے۔ ان کے پروگراموںکے پوسٹر اور بینر پر بیس فیصد سے زائد جگہ اردو کو نصیب نہیں ہوتی اور اپنی ویب سائٹس خالص انگریزی میں تیار کراتی ہیں۔ حالاںکہ اردو دوستی کاتقاضا تو یہ تھا کہ اس کا عملی ثبوت پیش کیاجائے۔ اردو کے تئیں وفاداری کاٹھوس ثبوت نہ پیش کرنا اردو دوستی کے دعوے کو خود ہی کھوکھلا کرنا ہے۔ اس رویے کانام اردو کے ساتھ زیادتی نہیں تو کیا رکھاجائے۔ ملک 1947میںانگریزوں کی غلامی سے توآزاد ہوگیا تھا لیکن انگریزی کی غلامی بدستور جاری ہے۔
گزشتہ دنوں نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے اردو زبان کے تعلق سے ایک موقع پر کہاکہ آئین کی آٹھویں فہرست میں شامل موجودہ سبھی 22زبانوں میں بیشتر کو علاقائی نسبت کی بنیادپر کسی نہ کسی ریاست میں ایک آشیانہ ملاہوا ہے، لیکن اردو اس سے مستثنیٰ ہے۔ اس طرح اردو ایک بے خانماں زبان بن گئی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تومعلوم ہوتاہے کہ2001کی مردم شماری کے مطابق ملک میں پانچ کروڑ پندرہ لاکھ اردو بولنے والے تھے جو ملک کی کل آبادی کاپانچ اعشاریہ صفر ایک فیصد ہوتے ہیں۔ کسی زبان کو بولنے والوں کا یہ چھٹا سب سے بڑا گروپ ہے،
ملک کی صرف پانچ ریاستوں اُترپردیش ، بہار، مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں چار کرور پندرہ لاکھ اُردو بولنے والے ہیں اور اگر ان میں جھارکھنڈ ، مغربی بنگال، مدھےہ پردیش ، تمل ناڈو اور دہلی کو بھی شامل کرلیاجائے تو ےہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن تشویش انگیز امر ےہ ہے کہ 1981اور1991کی مردم شماری میں اُردو بولنے والوں کا فیصد علی الترتیب پانچ اعشارےہ دو پانچ اور پانچ اعشارےہ ایک تھا۔ ان اعداد وشمار سے اشارہ ملتا ہے کہ اُردو بولنے والے مخصوص طریقے سے کم ہورہے ہیں۔ ایساکیوں ہے؟ اس پر وسیع تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں مغربی مفکر ابراہم ڈی سوان نے زبان کی ترویج واشاعت میں پیش آنے والی عملی دشواریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی مادری زبان کو ترک کرنے والے ایسا یا تو نقل مکانی کی وجہ سے کرتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے کسی اور چیز کو اختیار کرلیا ہے۔ اور کسی دیگر زبان سے ان کی توقعات زیادہ وابستہ ہو جاتی ہیں یاوہ اپنی مادری زبان کو اس لئے نظر انداز کرتے ہیں کہ اسکولوں، سرکاری محکموں یا عدالتوں میں کسی دیگر زبان کو ترجیحی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور ان کی مادری زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یا انہیں اس کا استعمال اس لئے ترک کرنا پڑتاہے کہ ان پر کسی دوسری قوم کی حکمرانی ہوتی ہے جو اپنی زبان ان پر تھوپ دیتی ہے اور دلبرداشتہ ہوکر وہ اپنی زبان کا تحفظ کرنا ترک کردیتے ہیں۔“ اُردو کو اپنی مادری زبان کہنے والوں کو اپنا جائزہ پروفیسر ابراہم ڈی سوان کے اس تجزےے کی روشنی میں لینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ محض خواہشات سے نتائج برآمد نہیں ہوتے اس کے لئے ٹھوس عملی ثبوت پیش کر نا ہوگا۔

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔