حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 18 مئی، 2012

ترکی انتخا بات پر میڈ یاکا ردعمل


 ترکی کے رائے دہندگان نے جب تیسری بار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو اکثریت سے منتخب کیا تو یہ خبر بین الاقوامی سطح پر خوب زیربحث آئی۔ میڈیا کے حلقے میںاس کے مثبت اور منفی پہلوﺅں پر سیاسی مبصرین نے گفتگو کی۔ وزیراعظم رجب طیب اردگان کی ترقیاتی پالیسیوں کو سراہا گیا، بعض حلقوں نے اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا تو کچھ نے اس جیت کو سیکورلزم کے لےے خطرہ بتایا۔ اس طرح کے تبصرے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تواتر کے ساتھ آرہے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا میں بھی اسی طرز کی گفتگو جاری ہے۔ بیشتر اخبارات نے اس خبر کو اپنے بین الاقوامی صفحات پر نمایاں جگہ دی لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہیں اسلام پسندوں کی یہ کامیابی راس نہ آئی۔ انھوںنے انتہائی بخل سے کام لیا۔ دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ”دی پائینیر“ نے خبر دینے کی بجائے صرف تصویر سے کام چلانا مناسب سمجھا۔ بعض حلقوںنے ترکی کے آئین میں ترمیم کے لےے ضروری اکثریت حاصل نہ کرپانے پر راحت کی سانس لی ہے۔ ہندی روزنامہ ’ہندوستان‘ نے آسٹریلیا کے اخبار ’دی آسٹریلین‘ کے حوالے سے ایک خصوصی کالم تحریر کیاہے۔ اخبار کاکہنا ہے کہ ترکی کے رائے دہندگان نے رجب طیب اردگان کو دوتہائی اکثریت نہ دے کر دور اندیشی کامظاہرہ کیا ہے، کیوں کہ اردگان ملک کے سیکولرآئین کو بدلنا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اس جیت کو جمہوریت کی فتح قرار دے رہاہے۔ ان کی یہ ناراضگی اس لےے ہے کہ یہ جیت اسلام پسندوں کی ہے جسے وہ دل سے تسلیم نہیں کرتے، جس کا اظہار ان کے تبصروں تجزیوں میں واضح نظرآتاہے۔ بلاشبہ جسٹس پارٹی ۰۰۵ کے ایوان میں ۶۲۳ نشستیں حاصل کرلینے سے ترک پارلیمنٹ مضبوط ہوئی ہے۔فوج کی حکمرانی کمزورپڑی ہے اور مصطفی کمال پاشا کا بنایا ہوا قانون اب آخری سانسیں گن رہا ہے۔ اس بات کا احساس سبھی کو ہے۔ ترکی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتاہے کہ ۰۶۹۱ءسے ۷۹۹۱ءتک چار مرتبہ فوج نے ترکی کے سیاسی امور میں مداخلت کی ہے۔ لیکن مسلسل سیاسی جدوجہد نے آج ترکوں کو سیکورلزم کو ختم کرنے کے اعلان تک پہنچادیا ہے۔ لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگاکہ ترک قیادت خلافت کے احیاءکا اعلان کرے گی۔ یہ بات تو اب واضح ہوچکی ہے کہ اسلامی نظام ہی ترکی کی منزل ہے۔ ترکی میں ۲۲۹۱ءسے ۰۹کے عشرے تک تقریباً ستر برس تک سیکولرزم مضبوط رہا لیکن ۰۹ کے عشرے سے ۱۱۰۲ءتک صرف دو عشروں میں عوامی جدوجہد کے نتیجے میں انتخابات میں ۹۱ سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا جس میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے مجموعی طورپر ڈالے گئے ۴ کروڑ ۹۲ لاکھ ۳۶ ہزار ۸۴۱ ووٹوں میں سے ۹۴ فیصد یعنی دو کروڑ ۴۱ لاکھ ۲۴ ہزار ۸۲۵ ووٹ حاصل کےے ہیں۔ جب کہ قریب ترین مخالف پارٹی اس کا نصف ووٹ ہی حاصل کرسکی۔ ایک کروڑ ۱۱ لاکھ ۱۳ ہزار ۱۷۳ ووٹ حاصل ہوئے اور تیسری جماعت نیشنل موومنٹ نے ۳۵ نشستیں حاصل کیں۔اس طرح ۰۵۵ کے ایوان میں تینوں جماعتوں کو بالترتیب ۶۲۳ نشستیں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو، دوسرے مقام پر آنے والی جماعت سی پی ایم کو ۵۳۱ اور نیشنل موومنٹ کو ۳۵ نشستیں حاصل ہوئیں۔ آزاد و دیگر کو ۶۳ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ لہٰذا جسٹس پارٹی کے لےے اب منزل تک پہنچنے میں زیادہ محنت کی نہیں حکمت و دانائی کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی سازشوں سے خبردار رہنے کی بھی
یہ تحریرترکی میں ۲۰۱۱ کے الیکشن کے بعد کی ہے

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔