حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 16 اگست، 2012

کیا اہل یورپ اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار ہیں؟

اسلامی اسکارف سے خائف مغرب سے گزشتہ دنوں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ایک مثبت خبر آئی ہے ۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ یوروپی ملک آسٹریا میں اسلام کو سرکاری مذہب تسلیم کئے اب سو برس ہوچکے ہیں۔ اس مناسبت سے وہاں صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جسے باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ آج سے سو برس قبل 1912ءمیں آسٹریا کے شہنشاہ فرانز جوزف نے ایک قانونی دفعہ کے تحت مسلمانوں کو مذہبی طبقے کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اور اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے آسٹریا کے موجودہ صدر ہنز فشرنے، جو کہ مذہب اورعقیدے کے اعتبار سے رومن کیتھولک عیسائی ہیں، اس موقع پر ملک میں مسلمانوں کی موجودگی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امن وآشتی کا پیغام دیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں اس یوروپی ملک کو مسلم شہریوں کی حیثیت تسلیم کرنے پر فخر ہے۔
غور طلب ہے کہ ملک کی کل آبادی میں مسلمانوں کاحصہ چھ فیصد ہے۔ اس اعتبار سے وہاں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ انہیں اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے اور تمام تر سرکاری فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے برخلاف مغربی ممالک کی ایک طویل فہرست ان ممالک پر مشتمل ہے جنہیں اسکارف اور دیگر اسلامی شعائر سے حد درجہ خطرہ ہے۔ ان میں بلجیم ، فرانس اور ڈنمارک سمیت دیگر یوروپی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کو مسلمانوں کی موجودگی بے انتہا کھلتی ہے خصوصاً مسلمانوں کا باعمل طبقہ ان کی نگاہ میں کانٹے کی مانند چبھتا رہتا ہے جس کا اظہار آئے دن مختلف شکلوں میں ہوتاہے۔ یوروپی ممالک میں مسلم خواتین پر اسکارف کے استعمال پر پابندی اسلام دشمنی کی بنا پر ہی ہے۔ آسٹریا کا یہ عمل ان یوروپی ممالک کے لئے یقینا قابل تقلید ہے جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کو امن عالم کے لئے خطرہ قرار دے کر نت نئے مخالف پروپگنڈے کو اپنا پسندیدہ مشغلہ بنا لیا ہے۔ کیااہل مغرب آسٹریا سے سبق حاصل کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ملک تمام تر مخالف پروپگنڈوں کے باوجود اپنے دیرینہ موقف پر آج بھی قائم و دائم ہے اور سو برس قبل لئے گئے فیصلے پر اسے فخر ہے۔
 آخر کیا وجہ ہے کہ آسٹریا کی قیادت اب تک اسلام مخالف پروپگنڈے کے دام فریب میں نہیں آسکی؟ یورپ کی قیادت آسٹریا سے سبق حاصل کرنے کو تیار ہے۔ کیااہل مغرب کی انصاف پسند قیادت مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر دیانتداری کے ساتھ
حالات کا تجزیہ لگانے میں اور ان بے بنیاد دعووں کی حقیقت کا پتہ لگانے میں جن کا سہارا لے کر مسلمانوں کو عالمی امن کے لئے خطرہ
 بتاکردنیاکو اسلام سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں، کوئی دلچسپی لیتی ہے؟ اگر اسلام مخالف پروپگنڈوں کی بنیاد سچائی پر مبنی ہے تو آسٹریا کو ان پروپگنڈوں پر یقین کیوں نہیں ہے؟ ہزار کوششوں کے باوجود وہاں کی حکومت کو گمراہ کرنے میں کامیابی کیوں نہیں مل سکی ؟ کیا اہل یورپ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کو تیار ہیں۔

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔