حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 16 اگست، 2012

غربت کے معنی کیا ہوتے ہیں


یہ محض اتفاق ہی تھا کہ ہماری پیدائش امیرگھرانے میں ہوئی، جس کی وجہ سے ہم آرام دہ زندگی گزار سکتے ہیں،لیکن ان لوگوں کے بارے میں کیا جو اپنے حالات کی وجہ سے سخت جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں۔ اِن سوالوں کے جوابات تو ہمیں نہیں معلوم لیکن اب ہم اتنا ضرور جان گئے ہیں کہ غربت کے معنی کیا ہوتے ہیں۔“یہ تاثرات ہیں، ان دو امیر زادوں کے جنھوںنے گزشتہ دنوں 100 روپیہ یومیہ میں زندگی بسر کرنے کا کربناک تجربہ کیا ہے۔ ایک نوجوان کا تعلق ہریانہ سے ہے جو ایک اعلیٰ پولیس افسر کا بیٹا ہے ، اس نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی ہے جب کہ دوسرا نوجوان کم عمری میں ہی اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلاگیاتھا۔ گزشتہ دنوں ان دونوں نوجوانوں نے یو آئی ڈی پروجیکٹ میں شرکت کی تھی اور یہاں ساتھ رہنے لگے تھے، دونوں نے ایک دن یہ فیصلہ کیاکہ کیوں نہ ہم ایک ہندوستانی کی اوسط آمدنی پر ایک ماہ گزار کر ہندوستانی عوام کی زندگیوں کو عملی طورپر سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھوںنے اس دوران پایاکہ اب وہ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ اس ادھیڑبن میں گزارتے تھے کہ دو وقت کے کھانے کا انتظام کس طرح کریں۔ اب ان کی زندگی کا دائرہ بہت محدود ہوگیاتھا۔ سستی غذائی اشیا کی تلاش ان کا روزمرہ کا معمول بن گیاتھا، بس کاسفر پانچ کلومیٹر سے زائد کا نہیں کرسکتے تھے۔ بجلی کا استعمال بھی بمشکل پانچ چھ گھنٹے ہی کرپاتے تھے اور نہانے کاایک صابن دونوں لوگ آدھا کاٹ کر استعمال کرتے تھے۔ گویا ان کی زندگی انتہائی مشکلات کاشکار ہوگئی تھی۔ جب کہ سوروپے یومیہ خرچ کرتے تھے۔ اب ذرا ہم ان 80 فیصد ہندوستانی عوام کی زندگی پر نگاہ ڈالیں جن کی آمدنی محض بیس روپے روزانہ ہے اور ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق شہروں میں 32روپے یومیہ اور دیہی علاقوں میں 26 روپے یومیہ خرچ کرنے والے افراد کو غربت کے دائرے سے باہر رکھاگیا ہے۔ ان کی زندگیاں کس طرح گزررہی ہیں، اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ان نوجوانوں نے محض ایک ماہ کی تکلیف کے بعد اس بات کو محسوس کیاکہ کیا واقعی ہمیں مہنگے ہیرپروڈکٹس اور مشہور کمپنیوں کے کریم استعمال کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا مہنگے ریستوراں میں کھانا کھاکر ویک اینڈ لازمی ہے؟ کیا ہم واقعی آرام و آسائش کے قابل ہیں؟ مذکورہ بالا سوالات نے ان نوجوانوں کے ضمیر کو تو جگادیا اوروہ اپنی سابقہ زندگی کے آرام وآسائش پر ازسرنوغور کرنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن کیا سرکارکو غربت کے شکار افراد کے احساسات کو سمجھنے کے لےے وقت ہے؟ ان نوجوانوں کے تجربے سے یہ ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے، اور اس کے لےے خوراک کے تحفظ کالازمی قانون لانے کے بعد کسی حد تک مفلوک الحال افراد کی کسمپرسی کو کم کیاجاسکتا ہے۔ وہ لوگ جو غربت اور بھوک کی وجہ سے زندگی بھر اذیت میںمبتلا رہتے ہیں، آخر ان کی زندگیوں میں خوشی کس طرح آسکتی ہے، اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔