حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 24 اگست، 2012

جھوٹی یقین دہانیوں پر کب تک تکیہ کیا جائے؟


گزشتہ دنوں ہندوستان کے تعلق سے امریکی میڈیا میں زیر بحث ایک خبر نے اپوزیشن پارٹی بی جے پی کو مرکزی سرکار پر تنقید کا زریں موقع فراہم کردیا۔ بات وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ناکارہ وناکام قرار دینے کی کہی گئی تھی۔ حالانکہ اسی جریدے نے این ڈی اے کے دور اقتدار میں بی جے پی کے سپریم لیڈر لال کرشن آڈوانی اور وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی پر بھی اسی طرح کا سخت تبصرہ کیا تھا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اب یہی بی جے پی ڈاکٹر منموہن سنگھ کے معاملے میں بغلیں بجا تی پھر رہی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر بی جے پی کے لوگ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پر کی گئی تنقید کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں تو انہیںاٹل بہاری باجپئی پر کی گئی تنقید کو بھی درست قرار دینا چاہئے اور ٹائم میگزین کے ذریعے لگائے گئے الزامات کو سچ ماننا چاہئے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ ہندوستان کی ایک ارب بیس کروڑ آبادی کو منموہن سنگھ سرکار کی ناکامی ثابت کرنے کے لئے کسی امریکی میگزین کے تبصرے کا سہارا لینے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ یوپی اے کا پہلا دور تو کسی حد تک بہتر قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ 2004ءاور 2009ءکے دوران یوپی اے سرکار نے کئی اہم اقدام اٹھائے تھے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ، رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، منریگا جیسی اسکیموں پر عملی کام کیا تھا، لیکن یو پی اے کا دوسرا دور عملی اقدامات کے معاملے میں بالکل صفر ثابت ہورہا ہے۔ سچرکمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر مسلم اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لئے سرکار کا ذہن صاف نہیں ہے۔ اب تک عملی اقدامات کے نام پر جو کچھ کیا گیا ہے ان میں دیانتداری کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر یوپی اے سرکار کو ئی ایسا ٹھوس کام شروع نہیں کرسکی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہو کہ سچر کمیٹی کی سفارشات کا فائدہ مسلم اقلیتوں کو ہورہا ہے البتہ سچر کمیٹی میں دیئے گئے اعداد وشمار کا بھرپور اور کامل استعمال ملک کی سیکورٹی ایجنسیاں بڑی چابکدستی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر ہراساں کرنے کےلئے کر رہی ہیں۔ سچری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں جب چونکا دینے والے اعداد وشمار آئے کہ دینی مدارس میں صرف چار فیصد مسلم بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو اس بات نے سیکورٹی ایجنسیوں کے طریق کار کو یکسر تبدیل کردیا یعنی جو اب تک مدارس کے طلباءکو دہشت گردی کے نام پر کارروائی میں نشانہ بناتے تھے انھوں نے گرفتاریوں کا رخ عصری تعلیم حاصل کرنے والے مسلم نوجوانوں اور برسرروزگار افراد کی جانب کرلیا اور اب اس رخ پر کام کر رہی ہیں۔ یوپی اے سرکار کو اب یہ احساس ہوچلا ہے کہ 2014ءکے عام انتخابات میں کامیابی کے امکانات معدوم ہیں اس لئے اب من مانے ڈھنگ سے کام کر رہی ہے۔ سرکارکے غیر ذمے دارانہ رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے مسئلے کو لے کر جب مسلم وفود وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں تو منموہن سنگھ جی جھوٹی تسلی دے کر وداع کردیتے ہیں اور حسب معمول سیکورٹی ایجنسیاں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں ۔ گزشتہ دنوں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم کے ذمے دار نے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے مل کر ان ہی مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور اس ہفتے محمد زبیرخاں نامی نوجوان کو جامعہ نگر سے گرفتار کرلیاگیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں مسلمان کیا کریں؟ موجودہ صورتحال سے مقابلہ کس طرح ممکن ہے؟ سرکار کی جھوٹی یقین دہانیوں پر کب تک تکیہ کیا جائے؟ خوش آئند بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے مسلم تنظیموں نے عملی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں جماعت اسلامی ہند ، جمعیة علماءہند ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ، ملی کونسل ، ارکان پارلیمنٹ اور سماجی کارکنان پر مشتمل گروپ سمیت دیگر تنظیموں نے اپنے اپنے حلقوں میں ملک گیر مہمات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سبھی کا مقصد ملت اسلامیہ ہند کو اس آزمائش کے دور سے باہر نکالنے کا ہے۔ مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے جس کے لئے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرکے پوری قوت اور توانائی کے ساتھ میدان عمل میں اترناہوگا.

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔