حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 12 جولائی، 2013

سی اے جی کی یہ رپورٹ کیا کہتی ہے

سائنس کے میدان میں وطن عزیز کی ترقی کےقصیدے پڑھے جاتے ہیں. معیشت کاخاصا حصہ ہر سال سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خرچ ہوتا ہے.اسی ماہ دو جولاءی کو ہندوستان نے پہلا نیوی گیشن سیارہ خلاء میں روانہ کیا ہے۔ لیکن کڑوی حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت میں ہر سال ہزاروں لوگ قدرتی آفات میں مارے جاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ سولہ جون کی شب میں بھارت کی ریاست اتراکھنڈ میں سیلاب سے انسانی جانوں اور کروڑوں کی ملکیت کی تباہی کا جو منظر دنیا کے سامنے آیا ہے اس نے ہماری تمام تر ساءنسی ترقی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس حادثے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گءے ہیں اور تین ہزار لاپتہ ہیں جبکہ آزاد ذراءع کا کہنا ہے کہ اس تباہی میں دس ہزار افراد ہلاک ہوءے ہیں  ۔
ملک نےناگہانی آفات سے نمٹنے کے لئے 2005 میں آفات مینجمنٹ ایکٹ لاگو کیا تھا. اسی کے تحت قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی تشکیل دی گءی. سال -122011- میں اس کا کل بجٹ 348 کروڑ روپے تھا. لیکن ایکٹ کے لاگو ہونے کے اتنے سالوں بعد بھی تباہی  سے نمٹنےکے لیے کوئی قومی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکی ہے.
ملک کے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل کی ناگہانی آفات سے ایک تازہ رپورٹ سے پتہ چلاہے ہے کہ این ڈی ایم اے کی قومی ایگزیکٹو کمیٹی نے مئی، 2008 کے بعد سے ایک بھی میٹنگ نہیں کی ہےرپورٹ کے مطابق قدرتی آفت کے دوران استعمال ہونے والا مصنوعی راڈار 'نظام 28.99 کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد بھی قائم نہیں کیا جا سکا ہے. جبکہ اسے چھ سال قبل ہی ہو جانا چاہئے تھا. ریاستوں میں قائم ریاستی اتھارٹیز کی بات کریں تو حالات اور بھی بدتر ہیں. رپورٹ کے مطابق صرف آٹھ ریاستوں کی طرف سے صرف 192 بڑے ڈیموں کے لئے ہنگامی منصوبے بنایا گیا ہے. جبکہ ملک میں بڑے ڈیموں کی تعداد 4،728 ہے.
حالیہ سیلاب سے متاثرہ ریاست اتراکھنڈ آفات مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام اکتوبر، 2007 میں ہوا تھا. گزشتہ سال آئی تباہی میں اترکاشی اور رودرپرياگ میں بھاری مالی نقصان ہوا تھا۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ
-13 2011 میں مرکزی حکومت نے ریاست میں تباہی کے انتظام کے لئے کوئی فنڈ جاری نہیں کیا. رپورٹ کے مطابق ایسا اس لئے کیا گیا کہ اس سے پہلے دیا گیا فنڈ خرچ نہیں ہوا تھا. اتراکھنڈ واحد ایسی ریاست ہے جہاں ایک وزارت کے تحت ایک آفات مینجمنٹ اتھارٹی کے علاوہ ایک خود مختار 'تباہی مینجمنٹ سینٹر' بھی قائم کیا گیا ہے.
 رپورٹ میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریاست میں ضلع سطح پر بنے ایمرجنسی آپریشن سیل کے قریب 44 فیصد عہدے خالی پڑے ہیں. یہی نہیں، ضلع، بلاک اور گاؤں کی سطح پر عملے کو حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی تربیت نہیں دی گءی تھی. ریاست میں 2007 سے 2012 تک 653 لوگ قدرتی آفت کی وجہ سے جان گنوا چکے تھے. ان میں 55 فیصد اموات چٹانیں کھسکنے اور بھاری بارش کی وجہ سے ہوئی تھیں. اس دوران ریاست میں 27 بڑی وارداتیں بھی ہوئیں. صرف 2012 میں ہی قدرتی آفات کی وجہ سے 176 افراد کی جانیں گئی تھیں. رپورٹ کے مطابق جون، 2008 میں ارضیاتی سروے نے 233 دیہاتوں میں سے 101 کو حساس قرار دیا تھا.
اتراکھنڈ سانحے کے بعد سے یہ اوراس طرح کی متعدد رپورٹیں اورتبصرے میڈیا میں زیر بحث ہیں ، لیکن ان حقائق پر توجہ دینے کی بجائے بعض سیاسی حلقے اس بات پر دست گریباں نظر آرہے ہیں کہ متاثرین کی ہمدردیاں انہیں کیسے حاصل ہوں جبکہ وہاں باز آباد کاری کا کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ سرکار نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور تباہی سے نمٹنے کے لئے ملک گیر سطح پر جامع منصوبہ بندی نہیں کی تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ ا س درمیان ایسی بھی خبریں آئیں کہ متاثرہ افراد سے لوٹ پاٹ بھی کی گئی ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔ لیکن اس درمیان ایک ایسا گروپ بھی دیکھا گیا ہے جس نے راحت اور بچائو کے کام میں ایماندارانہ کوشش کررہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مواقع پر سرکار اپنی ذمے داری ادا کرے اور عوام کو اپنی ذمے داریوں کا ادراک ہو ایسے موقع پر سبھی کی جملہ کوششیں ہی کام آتی ہیں۔


0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔