”بھارتی جیلوں میں روزانہ 43 قیدی پولیس تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں“ ۔ یہ سرخی ہے ٹائمز آف انڈیا کے ایک خصوصی رپورٹ کی۔ یہ خاص فیچر اخبار نے 28جون کو ایک بین الاقوامی رپورٹ کی روشنی میں شائع کیا ہے۔ خیال رہے کہ ہر برس اقوام متحدہ کاایک ذیلی ادارہ 26 جون کو تشدد کے شکار افراد کے ساتھ اظہار ہمدردی کے عالمی دن کے طور پر مناتا ہے۔ اخبار نے خبردار کیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت زیر حراست ہونے والی اموات کے بارے میں خود احتسابی سے کام لے۔
گزشتہ دنوں اسی نوعیت کاایک واقعہ پونے کی یروڈا جیل میں پیش آیا ہے جہاں قتیل صدیقی نام کے ایک نوجوان کو بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، یروڈا جیل کی انتہائی سیکورٹی والے انڈا سیل میں ہوئی قتیل صدیقی کی موت نے کئی سوالات جنم دیئے ہیں حالانکہ جیل انتظامیہ نے اسے ساتھی قیدیوں کے ذریعے کیاگیا قتل بتایا ہے۔ لیکن چہار جانب سے قتیل صدیقی کی موت پر سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا جواب ابھی ملنا باقی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں پایا ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے 47 اضلاع پر دو سال تک کئے گئے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ بھارت میں ہر سال1.8 ملین افراد پولیس تشدد کا شکار ہوتے ہیں ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں قائم قومی انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ 43 افراد پولیس زیادتی کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔

آج سے دو برس قبل حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے سرگرم سماجی کارکنان کے مسلسل دباﺅ کے بعد مرکزی حکومت نے انسداد تشدد بل تیار کیا تھا جسے لوک سبھا نے پاس بھی کردیا تھا لیکن جب بل کی کمزوریوں پر سماجی کارکنان نے آواز اٹھاتے ہوئے اسے مسترد کردیاتو اس بل کو واپس لے لیاگیااور ازسرنو دوسراس بل ڈرافٹ کیاگیا لیکن یہ نیا بل حکومت کی بدنیتی کی وجہ سے ابھی تک سرد خانے میں پڑا ہے۔ آئے دن ہونے والی زیر حراست اموات نے ملک کے سنجیدہ شہریوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ حکومتیں اگرحقائق کو نظرانداز کرنے کے رویے پر اسی طرح کاربند رہیں تو ملک کے عوام میں مایوسی اور خوف گھر کرجائے گا ۔ یہ صورتحال ایک صحت مند مستقبل کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی اور موجودہ حالت میں تبدیلی پولیس کی جوابدہی طے کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔