حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 8 نومبر، 2013

کیا منموہن کا دورہ چین ثمر آور ثابت ہوگا؟

 کیا بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا چین دورہ ثمر آور ثابت ہوگا؟ طے پانے والے معاہدوں کی پاسداری کی چین سے کیا امید کی جائے؟ کیا اب دونوں ملک اپنے باہمی تعلقات کو وسعت دینے کی ایماندارانہ کوشش کریں گے۔ منموہن سنگھ کے دورے کو چین نے کیا اہمیت دی ہے؟ کیا چین کی اعلی قیادت کی جانب سے گرم جوشی کا اظہار اس بات کا مظہرہے کہ اب دونوں ملک خطے میں ترقی وخوشحالی کو فروغ دینے کے لئے باہم تعاون کو فروغ دیں گے۔
یہ چند سوالات ہیں جو اس وقت بھارت سمیت دنیا کے ہر باشعور اور باخبر فرد کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور ان کے چینی ہم منصب لی کے کیانگ کے درمیان کل 9 معاہدے طے پائے ہیں ۔ دونوں ملکوں کو درمیان ثقافتی روابط کے فروغ دریاؤں کے پانی سے متعلق معاہدہ اور توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانا بھارت اور چین کے شہروں کے درمیا ن سسٹر ریلیشن قائم کرنا شامل ہے۔ یوں تو وزیراعظم کا یہ دورہ پانچ روز پر مشتمل تھا۔ دورے کے پہلے مرحلے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دو دن روس میں گزارے جہاں پانچ معاہدے طے پائے۔ بعد ازیں وزیراعظم وہیں سے چین کے سہ روزہ دورے پر نکل گئے ملکی اور غیر ملکی میڈیا سمیت ہر خاص وعام کی نگاہیں چین کے دورے پر تھیں، بھارتی میڈیا نے دورے کو گرم جوشی اور جذبات سے بھرپور قرار دیتے ہوئے خبر دی کہ چین کی اعلی قیادت نے انتہائی اہمیت دی ہے اور منموہن سنگھ کے استقبال کے لئے سرخ قالین بچھائے گئے انہیں اہم مقامات کی سیر کرائی گئی وغیرہ، لیکن بھارت۔ چین معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس دورے کے دوران جن معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں ان پر عملی اقدامات بھی اسی اعتماد کے ساتھ چین کرے گا اس بات کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کیونکہ ماضی میں چین نے ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ دینے کے بعد ہی منظم ڈھنگ سے بھارت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا تھا۔ اس لئے خبر دار کیا ہے کہ بھارت۔ چین تعلقات کو بہت باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں دونوں ملکوں کے وفود کم از کم بیس دفعہ مختلف مواقع پر ملاقات کرچکے ہیں اور گزشتہ ایک برس کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کیا ہے۔ اس کے باوجود چین کی جانب سے بھارتی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس دورے میں خاص طور سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے معاملے پر بات چیت ہوئی ہے جس پر دونوں ملکوں نے اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملک دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ہیں۔ اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی کے میدان میں چین بھارت سے زیادہ آگے ہے لیکن بھارت بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی بڑی معیشت تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر اس خطے کے یہ دونوں ملک باہمی ربط وتعلق کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ایماندارانہ کوشش کو عملی جامہ پہنا سکے تو وہ طاقتیں جو اس وقت پوری دنیا میں بدامنی کی بنیاد پر قیادت کر رہی ہیں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملک اپنے ماضی کو پس پشت ڈال کر روشن مستقبل کی فکر کریں۔
http://www.urdutimes.com/content/53415

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔