حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 8 نومبر، 2013

ذرا بتا دیں کہ بھارتی مسلمانوں کا آخر قصور کیا ہے؟

حالیہ دنوں بھارتی مسلمانوں سے متعلق دو رپورٹیں منظر عام پر آئیں ہیں ۔ ایک رپورٹ کا تعلق بھارتی جیلوں میں بند زیر سماعت مسلم قیدیوں سے ہے جبکہ دوسری خبر بھارتی مسلمانوں کی صحت عامہ کا حال بیان کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو این سی آر بی نے سال 2012 کے حوالے سے جاری اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک کی جیلوں میں بند زیر سماعت قیدیوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد 21 فیصد ہے لیکن ان میں سے صرف سترہ اعشاریہ سات پانچ فیصد مسلم قیدیوں کو عدالتوں نے قصوروار قرار دیا ہے جبکہ ہندوستانی جیلوں میں ہندو قیدیوں کی تعداد 92. 69 فیصد ہے اور ان میں 17 اعشاریہ تین پانچ فیصد قصوروار قرار دیے گئے ہیں۔ اسی طرح سکھ قیدی 3.97  فیصد ہیں اور ان میں 4.94  فیصد قصوروار قرار دیے گئے ہیں اور عیسائی فرقے سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کا تناسب 3.5  فیصد تھا جس میں 3.99  فیصد عیسائی قیدی قصوروار قرار دے گئے ہیں۔
مذکورہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں مسلم نوجوانوں کو گزشتہ ایک برس کے دوران بڑے پیمانے پر عدالتوں سے رہائی ملی ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ مسلمانوں کو غلط مقدمات میں بڑے پیمانے پر پھنسایا جاتا ہے، سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ ان اعداد و شمار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تئیں پولیس متعصب رویہ اختیار کرتی ہے۔ مسلمانوں کو غلط طریقے سے مقدمات قائم کر کے جیلوں میں تو ڈال دیاجاتا ہے، مگر آخرکار وہ عدالت سے بے قصور ثابت ہوتے ہیں۔
ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے پروفیسر وجے راگھون کہتے ہیں کہ مسلم قیدیوں کو بے قصور قرار دیے جانے کے تناسب کی صرف دو وجوہ سمجھ میں آتی ہیں اول یہ کہ یا تو مسلمان اچھے وکیل کے ذریعے اپنے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں یا پھر ان کے خلاف دائر کئے گئے مقدمات کی بنیاد انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف ہندو، سکھ اور عیسائی قیدیوں کے تناسب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیر سماعت تناسب سے کہیں زیادہ فیصد ان قیدیوں کا ہے جو 2012 کے دوران قصوروار قرار دیے گئے ہیں، اس رپورٹ  سے جہاں ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ پولیس محکمے کا تعصب کھل کر سامنے آیا ہے وہیں دوسری جانب غیر مسلم قیدیوں کے قصوروار قرار دیے جانے کا فیصد تشویشناک صورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم قیدیوں کے تناسب میں سال 2002 کے مقابلے کمی آئی ہے، اس وقت مسلم قیدیوں کا تناسب 24.72  فیصد تھا، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی ملک میں کل آبادی کا تناسب 13.43 فیصد بتایا جاتا ہے اور جیلوں میں یہ تناسب 21 فیصد ہے لیکن قابل اطمینان بات یہ ہے کہ طویل ترین عدالتی کارروائی کے بعد ہی سہی مسلم قیدیوں کی غالب اکثریت بے قصور ثابت ہوئی ہے، یہ تازہ رپورٹ ان لوگوں کے لئے جو عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے آگے بڑھ رہے ہیں حوصلہ افزا ہے۔
بھارتی مسلمانوں سے متعلق دوسری رپورٹ میں مسلمانوں کے صحت کی تشویشناک صورتحال بیان کی گئی ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آفس نے سال 2009-10 کی اپنی اس رپورٹ میں یہ بتایاہے کہ مسلم آبادی کی صحت اس وقت تشویشناک مراحل سے گزر رہی ہے صرف 22 فیصد مسلم آبادی ہی چالیس برس کی عمر پانے میں کامیاب ہوتی ہے جو کہ قومی اوسط 27.2 فیصد سے کافی کم ہے۔ مسلم کمیونٹی میں 46 فیصد آبادی تیس برس کی عمر والوں کی ہے جبکہ قومی اوسط 57.6 فیصد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی چالیس برس سے زیادہ عمر نہ پانے کی اصل وجہ حفظان صحت کی سہولیات تک  مسلمانوں کی رسائی نہ ہوپانا ہے کیونکہ مسلمانوں کی بڑی آبادی غیر منظم شعبے میں کام کرتی ہے جہاں زندگی خطرات کے سائے میں رہتی ہے۔
متذکرہ بالا دونوں رپورٹوں سے ملک میں بسنے والی بھارت کی  دوسری بڑی اکثریت کے حالات کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں ہندوستانی مسلمانوں کو کس کس  طرح کے مسائل درپیش ہیں اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا نوٹس لیتے ہوئے سرکار سے ان اعداد و شمار کی روشنی میں اقدامات کرنے کیلئے دبائو بنایا جائے۔ ضروری ہو تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعے سرکاروں کو مجبور کیاجائے، حوصلہ ازا امر یہ ہے کہ تمام تر دشواریوں کے باوجود بہرحال عدلیہ کے ذریعے کی جانے والی کوشش رنگ لا رہی ہیں  جیسا کہ این سی آر بی کی اس رپورٹ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بڑی تعداد میں مسلم قیدیوں کو بے قصور قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سیاسی دبائو بھی اہم کردار ادا کرتا ہے  اس کی بھی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
http://www.urdutimes.com/content/52578

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔