گزشتہ
ایک برس کے دوران بھارت میں ہونے والے سلسلے وارفرقہ وارانہ فسادات
پربلائی گئی قومی یکجہتی کونسل کی میٹنگ میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ
نے ایک بار پھر انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے
سوال پر ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ انسداد فرقہ وارانہ
فسادات بل کو قانونی شکل دینے کے لئے سرکار سبھی سیاسی جماعتوں کو ساتھ
لینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ابھی تک اس معاملے پر عام رائے نہیں ہوسکی ہے۔
غور طلب ہے کہ قومی یکجہتی کونسل کی یہ میٹنگ ایسے وقت ہوئی جب حالیہ دنوں
بھارتی ریاست اتر پردیش کے مظفر نگر ضلع میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا
واقعہ پیش آیا، جہاں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور پچاس ہزار
خاندان راحت کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ املاک کی تباہی و
بربادی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ فصلوں کی تباہی کے علاوہ مویشی
جانوروں کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ ملک بھر میں اس وقت فرقہ وارانہ ہم آہنگی
کی فضا کو مکدر کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اترپردیش میں گزشتہ ایک برس میں
تقریبا سو فسادات ہوچکے ہیں۔ سماجی تنظیموں نے مظفر نگر کے حالیہ فسادات کو
2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے مماثل قرار دیا ہے۔
ملک میں ایک خاص سیاسی گروہ اس وقت عام انتخابات کے پیش نظر ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کے درپے ہے اور اس کے لئے ہر ہتھکنڈے اپنانے میں مصروف عمل ہے ایسے وقت میں ملک کے باشعور حلقے انسداد فرقہ وارانہ فسادات قانون کی شدت سے ضرورت محسوس کر رہے ہیں جس کا مطالبہ وزیر اعظم سے ملاقاتوں میں متعدد بار مسلم تنظیموں کے ذمہ داران کرچکے ہیں اور ہر بار وزیر اعظم کی جانب سے کوری یقین دہانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مرکزی سرکار اس معاملے میں مضبوط قوت ارادی سے کام نہیں لے رہی ہے۔ سرکار کو کیا خدشات لاحق ہیں، سرکار کو کس طرح کے سیاسی نقصان کا خوف ستا رہا ہے۔ جب کہ ملک نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب سرکار نے کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے لئے کمزور وزیر اعظم کا لقب حاصل کرنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے انتہائی مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی میں کئی ایسے قدم اٹھائے ہیں، یہاں تک کہ اپنی حکومت تک کو داو پر لگا دیا ہے اور اس کی چنداں پرواہ نہیں کی کہ وہ وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں۔ نیوکلیئر ڈیل، ایف ڈی آئی اس کی تازہ مثال ہیں اِس کے علاوہ سرکار نے جب غذائی تحفظ بل پا س کرانے کا ارادہ کیا تو حزب اختلاف کی مخا لفت کے باوجود احتیاطی تدبیر اپناتے ہوئے پانچ جولائی 2013 کو ایک آرڈی نینس پاس کرا لیا تاکہ اگر کسی وجہ سے یہ بل پارلیمنٹ میں پاس نہ ہوسکے تب بھی آر ڈیننس کے ذریعہ اس کو نافذ العمل بنایا جاسکے۔ یہ اس لئے کیا گیا کیوں کہ اِس سے عام انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل ہونا ہے۔ اسی طرح داغدار ممبران اسمبلی اور پارلیمنٹ کے نااہل قرار دینے کا اندیشہ ظاہر ہوا تو فوری طور پر آنا فانا میں آرڈی نینس پاس کرانے کی تیاری شروع کر دی گئی ۔ جسے بعد میں راہول گاندھی کی مداخلت کے بعد واپس لینا پڑا ہے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے معاشی دشواریوں اور بحران کے باوجود ساتویں پے کمیشن کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیا۔
لہذا سرکار نے جب مناسب سمجھا اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر قدم اٹھائے ہیں لیکن ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کے لئے طویل عرصے سے جاری انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کو سردخانے میں ڈال رکھا ہے جب کہ یوپی اے نے 2004 کے اپنے انتخابی منشور میں اِس بل کو لانے کا وعدہ کیا تھا۔ 2011 میں یہ ڈرافٹ تیار ہوگیا تھا تب سے اب تک اس پر سیاست جاری ہے اس لئے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ عام رائے نہیں بن پا رہی ہے۔ درست نہیں کیوں کہ سرکار جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اس میں کوئی روکاوٹ نہیں آتی باشعور حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر 2014 کے عام انتخابات سے قبل اگر فسادات کی روک تھام کے لیے موثر قانون نہیں بنایا گیا تو فرقہ پرست سیاسی جماعتیں ملک کو بڑا نقصان پہنچاسکتی ہیں۔
ملک میں ایک خاص سیاسی گروہ اس وقت عام انتخابات کے پیش نظر ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کے درپے ہے اور اس کے لئے ہر ہتھکنڈے اپنانے میں مصروف عمل ہے ایسے وقت میں ملک کے باشعور حلقے انسداد فرقہ وارانہ فسادات قانون کی شدت سے ضرورت محسوس کر رہے ہیں جس کا مطالبہ وزیر اعظم سے ملاقاتوں میں متعدد بار مسلم تنظیموں کے ذمہ داران کرچکے ہیں اور ہر بار وزیر اعظم کی جانب سے کوری یقین دہانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مرکزی سرکار اس معاملے میں مضبوط قوت ارادی سے کام نہیں لے رہی ہے۔ سرکار کو کیا خدشات لاحق ہیں، سرکار کو کس طرح کے سیاسی نقصان کا خوف ستا رہا ہے۔ جب کہ ملک نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب سرکار نے کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے لئے کمزور وزیر اعظم کا لقب حاصل کرنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے انتہائی مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی میں کئی ایسے قدم اٹھائے ہیں، یہاں تک کہ اپنی حکومت تک کو داو پر لگا دیا ہے اور اس کی چنداں پرواہ نہیں کی کہ وہ وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں۔ نیوکلیئر ڈیل، ایف ڈی آئی اس کی تازہ مثال ہیں اِس کے علاوہ سرکار نے جب غذائی تحفظ بل پا س کرانے کا ارادہ کیا تو حزب اختلاف کی مخا لفت کے باوجود احتیاطی تدبیر اپناتے ہوئے پانچ جولائی 2013 کو ایک آرڈی نینس پاس کرا لیا تاکہ اگر کسی وجہ سے یہ بل پارلیمنٹ میں پاس نہ ہوسکے تب بھی آر ڈیننس کے ذریعہ اس کو نافذ العمل بنایا جاسکے۔ یہ اس لئے کیا گیا کیوں کہ اِس سے عام انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل ہونا ہے۔ اسی طرح داغدار ممبران اسمبلی اور پارلیمنٹ کے نااہل قرار دینے کا اندیشہ ظاہر ہوا تو فوری طور پر آنا فانا میں آرڈی نینس پاس کرانے کی تیاری شروع کر دی گئی ۔ جسے بعد میں راہول گاندھی کی مداخلت کے بعد واپس لینا پڑا ہے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے معاشی دشواریوں اور بحران کے باوجود ساتویں پے کمیشن کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیا۔
لہذا سرکار نے جب مناسب سمجھا اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر قدم اٹھائے ہیں لیکن ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کے لئے طویل عرصے سے جاری انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کو سردخانے میں ڈال رکھا ہے جب کہ یوپی اے نے 2004 کے اپنے انتخابی منشور میں اِس بل کو لانے کا وعدہ کیا تھا۔ 2011 میں یہ ڈرافٹ تیار ہوگیا تھا تب سے اب تک اس پر سیاست جاری ہے اس لئے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ عام رائے نہیں بن پا رہی ہے۔ درست نہیں کیوں کہ سرکار جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اس میں کوئی روکاوٹ نہیں آتی باشعور حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر 2014 کے عام انتخابات سے قبل اگر فسادات کی روک تھام کے لیے موثر قانون نہیں بنایا گیا تو فرقہ پرست سیاسی جماعتیں ملک کو بڑا نقصان پہنچاسکتی ہیں۔
http://www.urdutimes.com/content/52984
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔