ملک
کے دارالحکومت دہلی سمیت بھارت کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی
تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابات سے قبل ممکنہ نتائج کی پیش گوئی کرنے
والے سرو ے آج کل روزانہ میڈیا میں موضوع بحث بن رہے ہیں۔ تمام سیاسی
پارٹیاں اپنے اعتبار سے جیت ہار کا سروے میڈیا کو فراہم کرا رہی ہیں۔ سنسنی
خیزی میں کامل یقین رکھنے والا کارپوریٹ میڈیا اس سیاسی کھیل میں بھرپور
معاونت کررہاہے اور ہرہفتے عوام کو ایک نئی سرکار پیش کرتاہے۔ اس کام کو
سیاسی جماعتوں اور پیڈ نیوز کے خالق بڑی ہوشیاری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں
تاکہ پیڈ نیوز کے الزام سے بچتے ہوئے نام نہاد سروے کے ذریعے عوام کو گمراہ
کیا جائے۔ حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایسے سروے معاشرے میں اعتبار
کھوچکے ہیں۔
ٹی وی چینلوں پر نشر کیے جانے والے یہ سروے بڑی حد تک محض تفریح کاسامان
ہوتے ہیں، جس پر باخبر اور سنجیدہ حلقے توجہ نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود
بڑی آبادی جو آج بھی ٹی وی چینل پر نشر کی گئی ہر خبر کو حق اور سچ مانتی
ہے ایسے نام نہاد سروے انہیں گمراہ کرنے میں بڑی حد تک کامیا ب ہوتے ہیں
اور اس وقت یہی ہورہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں سروے کے ذریعے ماحول سازی کا کام
کررہی ہیں۔ ملک کا میڈیا ایسے نام نہاد سروے کو بنیاد بنا کر جس طرح گھنٹوں
مباحثے اور مذاکرے کرتا ہے اور اس درمیان نہ جانے کتنے اہم ایشوز اور
خبروں کو بے خبر کردیتا ہے، اس کو دیکھ کر بعض اوقات یہ محسوس ہوتاہے کہ
ملک کی صحافت اپنے مقصد سے دور ہوگئی ہے اور اگر اسی طرح بے بنیاد نام نہاد
سروے اور سنسنی خیزی کی راہ پر ہمارا میڈیا چلتا رہا تو معاشرے کے سنجیدہ
طبقے کا بھروسا کھودے گا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سروے کی بنیاد پر تخیلاتی
بلندی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے قبل عام انتخابات اور اسمبلی
انتخابات کے کئی مواقع پرمہمل نتائج اخذ کئے گئے تھے۔ لیکن حقیقی نتائج
سروے مخالف رہے۔ اس کے باوجود ہر بار اس طرح کی گمراہ کن کوشش ہوتی ہے۔ جب
کہ ملک کے عوام نے 2004 اور 2009 کے عام انتخابات کے سروے کے نتائج کو پوری
طرح ناکام بناتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ یہ بات اچھی طرح میڈیا کے
تجزیہ کاروں کو بھی معلوم ہے کہ ان کے چینل پر دکھائے گئے سروے سے نتائج
تبدیل نہیں ہوںگے لیکن چونکہ سنسنی خیزی ہی الیکٹرانک میڈیا کی آکسیجن ہے،
اس لئے وہ ایسا ہی کریں گے ضرور کریں گے کیونکہ یہ ان کی کاروباری ضرورت ہے
۔ عوام کید رمیان گمراہی پھیلانے کا یہ عمل آخری ووٹ کی گنتی تک جاری رہے
گا۔
اس سلسلے میں اگر صرف دہلی کی صورت حال کاجائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ
بدعنوانی کی مخالفت کی بنیاد پر وجود پانے والی نوزائیدہ پارٹی اور بی جے
پی دونوں نے یکساں طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ دونوں سروے کے سہارے منزل پانے
کی کوشش کررہی ہیں۔ صحت مند جمہوری قدروں کے تحفظ کا بنیادی تقاضا تو یہ ہے
کہ اس طرح کے نام نہاد سروے کو روکاجائے لیکن ہندوستان کا انتخابی کمیشن
اب تک کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا اس
طرح کے سروے کرانا اور انہیں میڈیا میں پیش کرنا انتخابی ضابطہ اخلاق کی
خلاف ورزی نہیں ہے؟ جیت کے لیے اخلاقیات کو پامال کرنا اور جمہوریت کا مذاق
اڑانا کہاں تک درست ہے۔ میڈیا کا کام عوام الناس کو صالح اور صحت مند
جانکاری مہیا کرانا ہے، گمراہ کرنا نہیں۔ اس طرح کے سروے سے گمراہی کو فروغ
ملتا ہے۔
میڈیا کی آزادی کا سہارا لے کر اس طرح غیرذمہ دارانہ کام انجام دیے
جارہے ہیں۔ ایسے نام نہاد سروے پر روک لگائے بغیر مضبوط جمہوریت کا خواب
شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ عوام کو سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ لینے کی آزادی
پر اِس طرح کے نام نہاد سروے سے منفی اثر پڑتا ہے، جو ملک کے مفاد میں نہیں
ہے۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔